کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کچھ نامعلوم افراد نے واٹس ایپ نمبر ہیک کرکے اپنے کنٹرول میں کیا، پھر تمام روابط کی طرف یہ پیغام بھیجا کہ مجھے اتنے اتنے پیسوں کی ضرورت ہے، بعض ناواقف یہ سمجھے کہ یہ پیغام ہماری طرف سے ہے، انہوں نے بغیر تحقیق کے مطلوبہ رقم ارسال کردی۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ آیا شرعا ہم پر واجب ہے کہ ہم ان رقوم کی ادائیگی کریں، جو غلطی سے ہیکروں کے پاس پہنچی ہیں، حالانکہ نہ ہمارا مطالبہ تھا اور نہ ہمیں معلوم۔
صورت مسئولہ میں چونکہ آپ اس معاملے میں نہ شریک رہے ہیں، اور نہ ہی آپ نے لوگوں سےان پیسوں کا مطالبہ کیا تھا، اور نہ ہی آپ کو اس کا علم تھا، بلکہ دھوکہ دہی کے ذریعہ سے آپ کے نام پر پیسے وصول کئے گئے، اس لئے شرعی اعتبار سے ان پیسوں کی ادائیگی آپ پر لازم نہیں ہے۔لما في الهداية:
’’(وإن شهدا بقصاص، ثم رجعا بعد القتل: ضمنا الدية، ولايقتص منهما)...ولنا أن القتل مباشرة لم يوجد، وكذا تسبيبا؛ لأن التسبيب ما يفضي إليه غالبا، وههنا: لا يفضى؛ لأن العفو مندوب إليه‘‘.(كتاب الرجوع عن الشهادات: 199/5، دار السراج)
وفي الأشباه والنظائر:
’’القاعدة التاسعة عشر: إذا اجتمع المباشر والمتسبب أضيف الحكم إلى المباشرفلا ضمان على حافر البئر تعديا بما أتلف بإلقاء غيره. ولا يضمن من دل سارقا على مال إنسان فسرقه‘‘.(الفن الأول: القواعد الكلية، قاعدة إذا اجتمع المباشر والمتسبب: 359/1، رشيدية)
وفيه أيضا:
’’قاعدة: الأصل براءة الذمة ولذا لم يقبل في شغلها شاهد واحد؛ولذا كان القول قول المدعى عليه لموافقته الأصل، والبينة على المدعي لدعوة ما خالف الأصل‘‘.(الفن الأول: القواعد الكلية، قاعدة الأصل براءة الذمة:154/1، رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:190/95