کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پاکستان بننے کے بعد جب اراضیات کو سرکاری ریکارڈ میں اندراج کیا گیا اس وقت نیک محمد (جو ملا خوش محمد کے بیٹے تھے اور نیک محمد کی ایک بہن بھی تھی جن کا نام بخت بی بی تھا) زندہ تھے، اور ملا خوش محمد فوت ہو چکے تھے، اندراج کے وقت نیک محمد بحیثیت سربراہ خود اپنی پدری جائیداد اور اپنی زر خرید جائیداد سرکاری ریکارڈ میں بنام نیک محمد درج کراچکا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جائیداد کی تقسیم نیک محمد کے ورثاء میں ہوگی یا ملا خوش محمد کے ورثاء میں؟ کچھ اشخاص کہتے ہیں ریکارڈ بنام نیک محمد ہے، تو تقسیم نیک محمد کے ورثاء میں ہونی چاہیے، ہم سرکاری ریکارڈ کو مانتے ہیں، جبکہ ملا خوش محمد کے ورثاء بھی طلب گار ہیں۔ وضاحت چاہیے۔
صورت مسئولہ میں نیک محمد بحیثیت سربراہ اپنی پدری (ملا خوش محمد مرحوم) جائیداد دیگر ورثاء کے علاوہ صرف اپنے نام کرانے سے اس کا مالک نہیں بنا تھا، بلکہ اس جائیداد میں ملا خوش محمد کے وہ تمام ورثاء باعتبار حصص شرعی مشترک تھے جو ملاخوش محمد کی وفات کے وقت زندہ تھے، لہذا ملا خوش محمد کی جائیداد کی تقسیم صرف نیک محمد کے ورثاء میں نہیں ہوگی، بلکہ ملا خوش محمد کے تمام ورثاء میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہوگی۔لما في الدر المختار :
’’اعلم أن أسباب الملك الثلاثة ناقل كبيع وهبة وخلافه كإرث وأصالة وهو الاستيلاء حقيقة بوضع اليد أو حكما بالتهيئة كنصب شبكة لصيد‘‘.( کتاب الصید،ص:679:دار الکتب العلمية)
و في الشامية:
’’لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي’’.(کتاب الحدود،مطلب فی التعزیر باخذ المال:98/6:رشیدية)
وفي البحر الرائق:
’’لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي ‘‘.(کتاب الحدود،فصل فی التعزیر:67/5:رشیدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/335