کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک لڑکی کے والد کا انتقال ہوچکا ہے، اب اس لڑکی کا نکاح ہوچکا ہے، اور اس میں لڑکی کا نام تبدیل کردیا گیا ہے، والد کا نام بھی تبدیل کرکے چچا کا نام لکھوا دیا گیا ہے، والد کا نام عبد اللطیف تھا، چچا کا نام عبد الحفیظ ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ والد کے نام کی جگہ آیا چچا کا نام لکھا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ شرع کی رو سے جواب دیا جائے۔
اگر بوقت نکاح ایسا نام لیا جائے کہ جو معروف نہ ہو یا وہ نام اس لڑکی کا نہ ہو جس کا نکاح کیا جارہا ہو، نکاح صحیح نہیں ہے۔ فتاوی دارالعلوم میں لکھا ہے کہ: ’’شرعا اس امر کا اعتبار ہے کہ نکاح خواں نے بوقت عقدِنکاح کیا نام لیا ہے، اگر اس وقت صحیح نام لیا تھا، تو نکاح منعقد ہوجائے گا، ورنہ نہیں ‘‘۔(114/7)
البتہ اگر سامنے ہوتی اور اشارہ بوقت نکاح اس کی طرف کیا گیا تو نکاح ہوجاتا، لیکن اگر منکوحہ سامنے نہ ہو، بلکہ گھر کے اندر ہو اور غلط نام لیا گیا ، تو نکاح نہیں ہوا، دوبارہ نکاح پڑھایا جائے۔(فتاوی دارالعلوم:114/7)اگر دولہا لڑکی کو پہچانتا ہواور گواہ بھی ، تو پھر باپ کا نام لینا ضروری نہیں ، بغیر باپ کا نام لئے بھی نکاح ہوجاتا ہے، شامی میں لکھا ہے:’’وإن كانت غائبة ولم يسمعوا كلامها بأن عقد لها وكيلها فإن كان الشهود يعرفونها كفى ذكر اسمها إذا علموا أنه أرادها‘‘.
(374/2) اور لکھا ہے کہ:’’لان المقصود من التسمیۃ التعریف وقد حصل‘‘.
لیکن یہاں پر صورت یہ ہے کہ باپ کے بجائے چچا کا نام لیا گیا ہے، لہذا نکاح نہیں ہوا، دوبارہ نکاح پڑھایا جائے۔(فتاوی دارالعلوم:117/7)۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:02/107