کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے کچھ معاملات میں جو وراثت کی تقسیم کے معاملات کے بارے میں ہے ،اس بارے میں آپ لوگوں کی رہنمائی درکار ہے،سوال مندرجہ ذیل ہیں۔
۱…میری کزن کے شوہر کا گھر ان کے والد صاحب کا تھا ،لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے کے نام کردیا تھا میری کزن کے شوہر کا کوئی بھائی بہن نہیں ہیں، اور عدت کے دوران ہی میری کزن کے شوہر کے والد صاحب کا انتقال بھی ہوچکا، تو پوچھنا یہ ہے کہ یہ مکان کس کے نام ہوگا، میری کزن کے سسر کے رشتہ داروں کا یا میری کزن کا؟
۲…اسی طرح بینک میں جو رقم ہےوہ جوائنٹ اکاونٹ تھی، میری کزن کے شوہر اور والد کے نام پر، اب دونوں کا انتقال ہوگیا ہے سسر کا بھی اور بیٹے کا بھی۔ برائے مہربانی ان تمام سوالات کے تسلی بخش جواب دیں۔
وضاحت:مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ باپ نے مکمل قبضہ دیا تھا، بس والدصاحب کے پاس کوئی اور جگہ نہیں تھی جسکی وجہ سےوہ ساتھ رہتےتھے اور بیٹا اپنے والد صاحب کی کفالت کرتا تھا، اور مرحوم شوہر کی والد اور بیوہ کے علاوہ اور کوئی وارث نہیں، اور جوائنٹ اکاونٹ میں مکمل رقم 27لاکھ روپیہ ہے، باپ اور بیٹا دونوں اس میں برابر کے آدھا آدھا شریک ہیں۔
۱…واضح رہے اگر باپ اپنے بیٹے کےنام پر مکان وغیرہ کردے تو یہ باپ کی طرف سے اپنے بیٹے کے لے ہدیہ ہوتا ہے، اور ہدیہ میں قبضہ شرط ہے، لہذا صورت مسئولہ میں باپ نے مذکورہ مکان بیٹے کے صرف نام کردیا تھا، مکمل قبضہ نہیں دیا تھا، لہذا یہ مکان والد کے ترکہ میں شمار ہوکر انہی کے رشتہ داروں میں شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوگا۔
۲…اس جوائنٹ اکاونٹ میں سے جو والد کی رقم ہے، وہ والد کے ورثہ میں تقسیم ہوگی اور جو شوہر کی رقم ہے، وہ شوہر کے ورثہ میں تقسیم ہوگی۔
صورت مسئولہ میں میراث تقسیم کرنے سے پہلے مرحومین کے ترکہ میں سے ان کے کفن دفن کے درمیانی اخراجات نکالے جائیں، بشرطیکہ کسی نے اپنی طرف سے بطور احسان ادا نہ کئے ہوں، اس کے بعد اگر ان کے ذمے واجب الاداء قرض یا دیگر مالی واجبات ہوں، تو وہ ادا کیے جائیں، پھر مرحومین میں سے کسی نے کسی غیر وارث کے لئے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اسے بقیہ ترکہ کے ایک تہائی میں سے نافذ کردیا جائے، پھر بقیہ ترکہ کو ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردیا جائے۔
تقسیم کا طریقہ یہ ہےکہ کل ترکہ کے 4برابر حصے کئے جائیں، جن میں سے (1) بیوہ کو،اور والد کو 3 حصے دئے جائیں۔
فیصدی لحاظ سے بیوہ کو %25حصے اور والد کو %75حصے ملیں گے۔
صورت مسئولہ میں جو قابل تقسیم (1350000)ساڑے تیرہ لاکھ روپے ہیں، اس تقسیم کی رو سے بیوہ کو (337500)روپے، اور والد کو (1012500)روپے ملیں گے۔
نمبر شمار |
ورثاء | عددی حصے | فیصدی حصے |
فی کس رقم |
1 |
بیوہ | 1 | 25.00% |
(3,37,500) |
2 |
والد | 3 | 75.00% |
(1,012,500) |
لما في تنوير الابصار:
’’فيفرض للزوجة فصاعدا الثمن مع ولد أو ولد ابن وأما مع ولد البنت فيفرض لها الربع وإن سفل والربع لها عند عدمهما‘‘.(كتاب الفرائض، 544/1، دارالمعرفة)
وفي التنزيل:
{وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ}.[النساء: 11]
وفي حاشية ابن عابدين:
’’واعلم أن الضابط في هذا المقام أن الموهوب إذا اتصل بملك الواهب اتصال خلقة وأمكن فصله لا تجوز هبته ما لم يوجد الانفصال والتسليم..... وإن اتصل اتصال مجاورة فإن كان الموهوب مشغولا بحق الواهب لم يجز...... وإن لم يكن مشغولا جاز‘‘.(كتاب الهبة، 573/8، رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/194