کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی آدمی اپنے بیٹے کو غصہ کی حالت میں یہ کہے کہ: اگر تو نے میرے گھر میں رات گزاری تو تیری ماں مجھ پر بہن ہوگی، تو کیا یہ بیٹا دن کو گھر آسکتا ہے یا نہیں؟ اس سے کون سی طلاق واقع ہوگی؟ اور کیا اس گھر سے اگر والد صرف اس کمرے کی نیت کرے جس میں وہ رہتے ہیں، باقی کمروں کی نہیں، تو پھر اس کا کیا حکم ہے؟ اور حال یہ ہیکہ یہ الفاظ غصے کی حالت میں کہے ہوں اور بیٹے نے اس دن سے کوئی رات گھر میں نہیں گزاری، یہ صورت مسئلہ بتا دیں، اور اس کا کوئی متبادل صورت بتا دیں۔
وضاحت: مذکورہ شخص کے عرف میں یہ الفاظ طلاق کے لئے استعمال ہوتے ہیں، اور انہوں نے ان الفاظ سے طلاق کی نیت کی تھی۔
صورت مسئولہ میں جس شخص نے اپنی بیٹے سے مذکورہ جملہ تو نے میرے گھر میں رات گزاری تو تمہاری ماں مجھ پر بہن ہوگی کہا ،اوراس شخص کےعلاقے کے عرف اور عادت کے مطابق یہ الفاظ طلاق کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور ان الفاظ سے ان کی نیت بھی طلاق کی تھی، تو اب اگر بیٹے نے گھر پہ رات گزاری، تو اس کی بیوی کو ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی، جس کے بعد میاں بیوی اگر اپنی رضامندی سے رشتہ ازدواج قائم رکھنا چاہتے ہوں، تو تجدید نکاح لازم ہے، البتہ بیٹا دن کے اوقات میں گھر آسکتا ہے اوراس سے نہ شرط پوری ہوگی اور نہ ہی طلاق واقع ہوگی۔لما في التنويرمع الدر:
’’(وإن نوى بأنت علي مثل أمي) كأمي وكذا لو حذف علي خانية (برا أو ظهارا أو طلاقا صحت نيته) ووقع ما نواه لأنه كناية (وإلا) ينو شيئا أو حذف الكاف (لغا) وتعين الأدنى أي البر يعني الكرامة ويكره قوله أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه.اهـ‘‘.
و تحته في الشامية:
’’قوله: (أو حذف الكاف) بأن قال: أنت أمي، ومن بعض الظن جعله من باب زيد أسد در منتقى عن القهستاني. قلت: ويدل عليه ما نذكره عن الفتح من أنه لا بد من التصريح بالأداة.
قوله: (لغا) لأنه مجمل في حق التشبيه فما لم يتبين مراد مخصوص لا يحكم بشيء فتح.
قوله: (ويكره إلخ) جزم بالكراهة تبعا للبحر والنهر والذي في الفتح: وفي أنت أمي لا يكون مظاهرا، وينبغي أن يكون مكروها، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته يا أخية مكروه. وفيه حديث رواه أبو داود «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سمع رجلا يقول لامرأته يا أخية فكره ذلك ونهى عنه» اهـ‘‘.(كتاب الطلاق، باب الظهار، مطلب بلاغات محمد رحمه الله مسندة: 133/5: رشيدية)
وفي التنويرمع الدر:
’’(وفيها) كلها (تنحل) أي تبطل (اليمين) ببطلان التعليق (إذا وجد الشرط مرة إلا في كلما‘‘.
و تحته في الشامية:
’’قوله:(أي تبطل اليمين) أي تنتهي وتتم، وإذا تمت حنث فلا يتصور الحنث ثانيا إلا بيمين أخرى؛ لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار لغة نهر‘‘.(كتاب الطلاق، مطلب في الفاظ الشرط:4/ 596: رشيدية)
وفي الهندية:
’’وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق‘‘.(كتاب الطلاق، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما:1/ 420: دارالفكر بیروت).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/339