والدین کی حیات میں ان کی گستاخی کرنے والے کے لیے شریعت کا حکم

والدین کی حیات میں ان کی گستاخی کرنے والے کے لیے شریعت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے والدین کی حیات میں والدین کی گستاخی کی، اس کے متعلق کیا حکم ہے؟

جواب

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،اسلام نے جس طرح حقوق اللہ کا پاس رکھنے کا حکم دیا ہے، اسی طرح حقوق العباد کوبھی پورا کرنے کا حکم دیا ہے، حدیث شریف کا مفہوم ہے:’’وہ شخص کامل مسلمان نہیں، جس کاپڑوسی اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہیں‘‘، یہ حکم اجنبی پڑوسی کے حقوق سے متعلق ہے،والدین کا مقام و مرتبہ تو اس سے کئی گنا بلند ہے،قرآن وحدیث میں والدین کی عزت وتوقیر اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ کابڑی شدومد کے ساتھ حکم دیا  گیاہے،حتی کہ اگر والدین غیرمسلم ہوں،پھر بھی ان کی بےادبی اورگستاخی سےمنع کیا گیا ہے، اور اگر خدانخواستہ کوئی ان کی بے ادبی اور گستاخی کربیٹھے، تو ان کےلئے بڑی خطرناک وعیدیں بیان کی گئی ہیں،حضورﷺکی حدیث شریف ہے، جس کا مفہوم کچھ یوں ہیں:اس شخص کی ناک خاک آلود ہو،جس نے اپنے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کو ان کے بڑھاپے کی حالت میں پایا، اور(ان کی خدمت و فرمانبرداری کر کے) جنت میں داخل نہیں ہوسکا ،اگر تو والدین حیات ہیں، چاہئے کہ ان کی خدمت میں حاضر ہوکران سے معافی طلب کرے، اورآئندہ کوئی ایسی بات یا کام نہ کرے جس سے ان کو تکلیف ہو، ہرجائز معاملے میں ان کا کہا مانے اور اگر والدین وفات پاگئے،تو بارگاہِ الٰہی میں سچے دل سے اپنے اس عمل پر توبہ کرے، ان کے لئے زیادہ سے زیادہ توبہ واستغفار کرے، اسی طرح ایصال ثواب کا اہتمام کرے اور ان کے دیگر متعلقین، دوست واحباب سے اچھے طریقے سے پیش آئے، ہوسکے تو ان کی خدمت میں عزت واکرام کے ساتھ ہدیہ پیش کرے۔
لما في التنزيل الحكيم:
﴿وقضى ربك ألا تعبدوا إلا إياه وبالوالدين إحسانا إما يبلغن عندك الكبر أحدهما أو كلهما فلا تقل لهما أف ولا تنهرهما وقل لهما قولا كريما. واخفض لهما جناح الذل من الرحمة وقل رب ارحمهما كماربيني صغيرا﴾.(سورة الإسراء:23،24)
وفي روح المعاني:
’’﴿وبالوالدين إحسانا﴾ أي: وبأن تحسنوا بهما أو أحسنوا بهما إحسانا‘‘.
وفيه أيضا:
’’﴿إما يبلغن عندك الكبر أحدهماأوكلهما﴾....ومعنى عندك في كنفك وكفالتك‘‘.(سورة الإسراء:23، ج:14، ص:468،469، مؤسسة الرسالة)
وفيه أيضا:
’’﴿فلا تقل لهما أف﴾....ومحصل المعنى: لاتتضجرمما يستقذر منهما وتستثقل من مؤنهما. والنهي عن ذلك يدل على المنع من سائر أنواع الإيذاء قياسا جليا؛لأنه يفهم بطريق الأولى... وقيل يدل على ذلك حقيقة ومنطوقا في عرف اللغة‘‘.(سورة الإسراء:23، ج:14، ص:471، مؤسسة الرسالة)
وفيه أيضا:
’’﴿ولا تنهرهما﴾...وقال الإمام : المراد من قوله تعالى ((فلا تقل لهما أف)) المنع من إظهار الضجر القليل والكثير والمراد من قوله سبحانه.
((ولا تنهرهما)) المنع من إظهار المخالفة في القول على سبيل الرد عليهما والتكذيب لهما‘‘.(سورة الإسراء:23، ج:14، ص:471،472، مؤسسة الرسالة)
وفيه أيضا:
’’﴿واخفض لهما جناح الذل﴾... أي: تواضع لهما وتذلل... (من الرحمة)أي:من فرط رحمتك. (وقل رب ارحمهما) وادع الله تعالى أن يرحمهما برحمته الباقية وهي رحمة الآخرة ولا تكتف برحمتك الفانية ... وخصت الرحمة الأخروية بالارادة لأنها الأعظم المناسب طلبه من العظيم‘‘.(سورة الإسراء:23، ج:14، ص:472-474، مؤسسة الرسالة).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 188/347