کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آدمی نیکر کہاں سے کہاں تک پہن سکتا ہے، آج کل آدمی نیکر استعمال کرتا ہے، کیا وہ شرعا جائز ہے یا نہیں؟
کیا آدمی اس کو پہن کر لوگوں کے سامنے جاسکتا ہے یا نہیں؟ اور امام اعظم اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہما کے نزدیک ستر عورت کہاں سے کہاں تک ہے؟ اس مسئلے کا جواب شریعت مطہرہ کی روشنی میں قلم بند فرمائیں۔ بینوا توجروا
صورت مسئولہ میں چار امور قابل غور ہیں :
۱… ایک یہ کہ نیکر کہاں سے کہاں تک پہن سکتا ہے؟
۲… دوسرا یہ کہ آج کل لوگ نیکر استعمال کرتے ہیں، وہ شرعا جائز ہے یا نہیں؟
۳… تیسرا یہ کہ اگر اس کو پہن کر لوگوں کے سامنے جائے، تو جاسکتا ہے یا نہیں؟
۴… چوتھا یہ کہ ائمہ کے مابین ستر عورت کہاں سے کہاں تک ثابت ہے؟
۱…چنانچہ صاحب ھدایہ فرماتے ہیں :’’وعورة الرجل ما تحت السرة الرکبة؛ لقوله: عورة الرجل ما بین سرته إلى رکبته، إلی أن قال أن السرة لیست من العورة، خلافا لهما یقوله الشافعي: والرکبة من العورة خلافا له أیضا‘‘.(کتاب الصلوۃ، باب شروط الصلوةالتي تتقدمها، 428/1، دارالسراج)
عبارت بالا کا مطلب یہ ہے کہ مرد کا ستر اس کی ناف کے متصل نیچے سے گھٹنے تک ہے، تو معلوم ہوا کہ ناف سے لے کر گھٹنے تک ہونا ضروری ہے، اگر ناف سے لے کرگھٹنےتک نہ ہو، بلکہ گھٹنے کے اوپر ہو، تو اس کا پہننا ناجائز ہوگا، بشرطیکہ گھٹنے پر کوئی چیز پہنی ہوئی نہ ہو۔
۲… آج کل لوگ نیکر استعمال کرتے ہیں، اگر نیکر سے مراد وہی نیکر ہے جو عام طور پر لوگ گھٹنے سے اوپر پہنتے ہیں، تو یہ بھی ناجائز ہوگا، بشرطیکہ گھٹنے پر کوئی چیز پہنی ہوئی نہ ہو۔
۳…اگر نیکر سے مراد وہی نیکر ہے جو عام طور پر آدمی گھٹنے کے اوپر پہنتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ اس کو پہن کر لوگوں کے سامنے جانا کیسے جائز ہوگا۔
۴…ستر عورت کے متعلق ائمہ کے مابین اختلاف یہ ہے کہ ہمارے تینوں ائمہ کے نزدیک ناف ستر میں داخل نہیں لیکن گھٹنہ ستر میں شامل ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ناف ستر میں داخل ہے اور گھٹنہ داخل نہیں ہے۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:05/68