کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی سورت میں آیات کم ہوتی ہیں،مگر الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور ایسی صورت میں ایک سورت کے دوسری سورت سے الفاظ زیادہ ہونے سے اثر بھی زیادہ ہوتا ہے،مثلاً سورۃ الانشراح
اور سورۃ البینۃ
دونوں سورتوں میں آٹھ آٹھ آیات ہیں ،مگر سورۃ البینۃ
کے الفاظ بہت زیادہ ہیں،اب برابر یاکم ہونے کا سوال اگر الفاظ کے لحاظ سے دیکھا جائے،تو میرے خیال میں زیادہ مناسب ہے،اگر آیت کے طول کا لحاظ دیکھا جائے،تو وہ بھی ٹھیک نہیں ہے کہ کتابت میں کوئی لفظ کھینچ کر لکھا جاتا ہے،ان سب صورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے آپ ہدایت دیں کہ:
1…ایک سورت سے دوسری سورت کی مقدار جانچنے کےلئے الفاظ کا لحاظ کیا جائےیا آیات کا یا طول عبارت کا؟
2…نو آیات پر مشتمل سورت سے پہلے کوئی سورت پڑھی جائے،اور اس درمیان سورت کے بعد والی سورت پانچ آیات پرمشتمل ہے ،تو کیا درمیانی سورت کو چھوڑ کر بعد والی کو پڑھا جائے؟
3…دو سورتوں کا آپس میں کتنے چھوٹے بڑے ہونے کا معیار ہے؟اس لئے کہ قلیل وکثیر کا تعلق الفاظ پر اگر سمجھا جائے،تو میں نے ایک کتاب دیکھی ہے کہ دوسری رکعت کی قرأت پہلی رکعت سے قلیل(کم) کرنا مکروہ ہے،جبکہ فرق معلوم ہوتا ہےاور اس کی مقدار یہ ہے کہ اگر دونوں سورتوں کی آیات برابر ہوں،تو تین آیات کی زیادتی سے کراہت ہے،اگر چھوٹی بڑی ہوں ،تو آیات کی مقدار کا اعتبار نہیں،بلکہ صرف کلمات کا اعتبار ہے اگر کلمات حروف میں بہت تفاوت ہو ،تو کراہت ہے اگر چہ آیات گنتی میں برابر ہوں،مثلاً پہلےسورۃ الانشراح
پڑھی دوسری میں سورۃ البینۃ
تو کراہت ہے، اگرچہ دونوں میں آٹھ آٹھ آیات ہیں۔سورۃ البروج
میں 22 آیا ت ہیں پہلے گیارہ آیات میں 314 الفاظ اور دوسرے 11 آیات میں صرف 149 الفاظ ہیں،یعنی دونوں حصوں میں 165 الفاظ کا فرق ہے،اسے دو حصوں میں کس طرح پڑھا جائےالفاظ کے لحاظ سے یا آیات کے لحاظ سے؟
ایک مولوی صاحب نے بتلایا تھاکہ صرف مخصوص مقامات کے علاوہ اور کہیں الفاظ یا آیات میں کمی بیشی نہیں ہوتی،کیا یہ صحیح ہے؟اگر صحیح ہے تو کن مقامات پرکمی بیشی کا خیال رکھنا چاہیے اور کن مقامات پر نہیں؟
ایک رکعت میں دو مقامات سے کچھ کچھ آیات قرأ ت کی جاسکتی ہے یا نہیں؟قعدہ کی حالت میں دعا مأ ثورہ ختم کرنے کے بعد اوربجائے سلام کوئی دوسرا سہو ہو اور سجدہ سہو کرلیا،تو نماز ہوجائے گی یا نہیں ،اور اگر کسی وقت بلا محل درود شریف صلی اللہ علیہ وسلم
یا ثنا پڑھ لیااور سجدہ سہو نہ کیا ،تو کیانماز ہو جائے گی یاسجدہ سہو ضروری ہے؟
اب آپ ہدایت دیں کہ کس طرح سے دونوں سورتوں کی تفصیل ہوگی کہ میں نماز میں اطمینان حاصل کرسکوں،مہربانی کرکے سب صورتیں غور کرکے مجھ نا سمجھ کےلئے اسی تفصیل سے ہدایت دیں کہ دقت نہ ہو۔
عالمگیری میں لکھا ہے:’’قال المرغيناني: التطويل يعتبر بالآي إن كانت متقاربة وإن كانت الآيات متفاوتة من حيث الطول والقصر يعتبر بالكلمات والحروف. كذا في التبيين.(کتاب الصلاۃ، الباب الرابع فی صفہ الصلاۃ،الفصل الرابع فی القراءۃ:78/1،دارالفکر بیروت)
وفي خلاصة الفتاوى:
’’ثم يعتبر من حيث الآيات إذا كان بين الآية مقاربة اما إذا كان بينهما تفاوت فمن حيث الطول والقصر ولا يعتبرالكلمات والحروف وهو اختيار الشيخ الإمام جمال الدين المحبوبي‘‘.(96/1)
یعنی فقہاء کے نزدیک دو قول ہیں،بعض فقہاء کے نزدیک کثرت آیات اور قلت آیات کا اعتبار ہے، اور حروف و کلمات کا اعتبار نہیں، ہےجیساکہ خلاصۃ الفتاوی کی عبارت میں اس کا ذکر ہے،اور بعض کہتے ہیں کہ اگر آیات ایک جیسی ہوں یعنی طوالت میں تقریباً برابر ہوں،تو پھر کثرت آیات کا اعتبار ہے،اور اگر آیات میں تفاوت ہے ،تو پھر حروف وکلمات کی زیادتی اور کمی کا اعتبار ہے،لیکن راجح قول یہ ہے کہ حروف وکلمات کا اعتبار نہیں ہوتا ،بلکہ آیات کا اعتبار ہوتا ہےجیساکہ قاضی خان نے لکھاہے۔’’وإذا بلغت الآيات مقدار قصير سورة من القرآن فالمعتبر كثرةالآيات لا كثرة الكلمات والحروف ‘‘.
یعنی کثرت آیات کا اعتبار ہوگا،نیز چھوٹی سورتوں میں اگر ایک سورت پہلی رکعت میں پڑھے،اوراس کے بعد والی سورت چھوڑ کر دوسری رکعت میں تیسری سورت پڑھی ،تو یہ مکروہ ہے،خلاصۃ الفتاوی میں لکھا ہے:’’وفي الركعتين ان كان بينهما سور لا يكره وان كان بينهما سورة واحدة قال بعضهم يكره وقال بعضهم ان كانت السورة طويلة لا يكره كما اذا كانت بينهما سورتان قصيرتان‘‘.(خلاصۃ الفتاویٰ:94/1)
نیز ایک آیت سے دوسری آیت کی طرف انتقال یا ایک سورت سے دوسری سورت کی طرف انتقال کرنا ایک رکعت میں مکروہ ہے، خلاصۃ الفتاوی میں لکھا ہے:’’والانتقال من آية من سورة إلى آية اخرى من سورة اخرى رواية من هذه السورة بينهما آيات مكروه‘‘.(خلاصۃ الفتاویٰ:97/1).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:01/198