کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی سے سنا ہے یا کہیں پڑھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بدن میں تیر گھس گیا، جب نکالنے کی کوشش کی گئی تو حضرت علی کو بہت تکلیف ہوئی، جو کہ ناقابل برداشت تھی، لہذا آپ نے فرمایا کہ جب میں نماز میں مشغول ہو جاؤں تو تب نکال لینا، لہذا جب نماز میں مشغول ہو گئے، تو لوگوں نے وہ تیر نکال لیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو محسوس بھی نہیں ہوا، برائے کرم مندرجہ بالاروایت کی اصلیت احادیث اور سند سے مطلع فرمائیں۔
وعظ وغیرہ کی غیر مستند کتابوں میں تو لکھا دیکھا، لیکن نہ اس روایت کو کسی مسند کتاب میں دیکھا، اور نہ کہیں سند کے ساتھ نظر سے گزرا، بہر حال حضرت علی رضی اللہ کی فضیلت اپنی جگہ پر ثابت ہے اور یہ واقعہ بھی کچھ مستبعد نہیں، لیکن بقول عبداللہ ابن مبارک رحمہ اللہ کے ’’بہر حال اسناد اور سند دین میں سے ہے بغیر سند کے کوئی بات قبول نہیں کی جا سکتی، ورنہ پھر تو جس کے دل میں جو آئے گا، وہ کہے گا اور دین محفوظ نہیں رہے گا ‘‘۔(کما فی مقدمہ مسلم، ص:۱۲، ج:۱)
نیز اگر کسی کی فضیلت میں غیر مستند اقوال قبول کیے جائیں، جب کہ ان کی فضیلت مستند اقوال سے بھی ثابت ہے، پھر ان کے ذم میں بھی غیر مستند اقوال قبول کرنے کا دروازہ کھل جائے گا، اس لیے احتیاط بہرحال ضروری ہے۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:03/232