کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ اگر عمامہ کو صرف نماز کے لیے خاص کردیا جائے یعنی نماز کے وقت عمامہ باندھ لیا جاتا ہے اور بعد نماز اتار کر رکھ دیا جاتا ہے یا نہیں؟ اس مسئلے کو تفسیر سے بیان فرمادیا جائے کہ سنت ادا ہوگی یا نہیں؟
عمامہ باندھنا سنت ہے، اس کی تخصیص نماز کے ساتھ نہیں ہے، اگر چہ مستحب یہ ہے کہ نماز عمامہ کے ساتھ پڑھائی جائے، جیسا کہ فتاوی دار العلوم میں کبیری کے حوالے سے لکھا ہے کہ امامت کے ساتھ عمامہ کے افضل واحسن ومستحب ہے، لیکن صرف ٹوپی سے بلا عمامہ مکروہ نہیں ہے۔(فتاویٰ دارالعلوم:3/169) (بحوالہ کبیری، ص:237)
(وکذا في فتاوی رشیدیۃ، ص:339)
لیکن یہ صورت جو سوال میں لکھی کہ عام حالت میں تو عمامہ نہیں باندھنا ہے، لیکن نماز کی وقت محراب میں رکھا ہوا ہو نماز کے وقت سر پر رکھ دے اور نماز کے بعد پھر اتار کر رکھ دے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا کہ اس کو ضروری سمجھتا ہے، حالانکہ مستحب امر کو ضروری کے درجہ تک پہنچانا جائز نہیں ہے۔کما في مجمع البحار:
’’من اصر علی امر مندوب وجعلہ غرماً ولم یعمل بالرخصۃ فقد اصاب منہ الشیطان من الضلال‘‘.(ص:244)
(وکذا في المرقات شرح مشکوۃ لعلي القاري، 2/14)
ان عبارتوں سے معلوم ہوا کہ نفس عمامہ مستحب ہے، نماز کے وقت بھی البتہ اس کو ضروری سمجھنا اور فرض وواجب کے درجہ تک پہنچانا ناجائز ہے۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:01/241