نماز میں سورہ فاتحہ سے قبل تسمیہ پڑھنے کی شرعی حیثیت

نماز میں سورہ فاتحہ سے قبل تسمیہ پڑھنے کی شرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ سے قبل تسمیہ پڑھی جاتی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر کوئی پڑھنا بھول جائے یا قصدا نہ پڑھے، تو نماز پر کوئی فرق پڑتا ہے؟

جواب

ہر رکعت میں سورہ فاتحہ سے قبل تسمیہ مسنون ہے، سہوا چھوٹ جائے تو حرج نہیں، قصدا چھوڑنے کی عادت بنانا درست نہیں۔
لما في التنوير مع الدر:
’’(وسمى) غير المؤتم بلفظ البسلمة....(سرا في) أول (كل ركعة) ولو جهرية (لا) تسن (بين الفاتحة والسورة مطلقا) ولو سرية ولا تكره اتفاقا‘‘.
وفي الرد:
’’(قوله: ولا تكره اتفاقا) ولهذا صرح في الذخيرة والمجتبى بأنه إن سمى بين الفاتحة والسورة المقروءة سرا أو جهرا كان حسنا عند أبي حنيفة ورجحه المحقق ابن الهمام وتلميذه الحلبي لشبهة الاختلاف في كونها آية من كل سورة‘‘.(كتاب الصلوة، مطلب قراءة البسملة بين الفاتحة والسورة حسن: 235/2:رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/119