کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص سورہ فاتحہ اور قراءت کے بعد رکوع میں جانے کے بجائے بھول کر سجدہ میں چلا گیا اور دوسری رکعت سے پہلے یاد آیا، یا دوسری رکعت میں یاد آیا، اب اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے؟ دلیل کے ساتھ جواب تحریر فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں جو شخص سورہ فاتحہ اور قراءت پڑھ کر رکوع کے بجائے سہوا سجدے میں چلا گیا اور دوسری رکعت سے پہلے، یا بعد میں یاد آیا کہ میں نے رکوع نہیں کیا، تو دونوں صورتوں میں یاد ہونے کے ساتھ ساتھ رکوع کرنے کے لیے رجوع کرے اور پھر سجدہ کا اعادہ بھی کرے؛ اس لیے کہ یہ رکوع نماز کا رکن اور فرض ہے، اس کے ترک سے نماز فاسد ہو جائے گی اور اس میں ترتیب بھی فرض ہے، یعنی ایک فعل کے فوت ہونے کے بعد دوسری چیز کے ادا کرنے سے بھی یہ دوسری چیز ادا نہیں ہوتی، جب تک پہلے فوت شدہ عمل کی قضا نہ کی جائے۔
چونکہ اس صورت میں رکوع کے بغیر سجدہ کیا ہے، اس لیے وہ ادا کرنے سے بھی ادا نہیں ہوا، گویا یہ سجدہ ہی نہیں کیا، لہذا رکوع کو ادا کرنے کے بعد سجدے کا بھی اعادہ کرے؛ اس لیے کہ یہ علما ًو عملا ًفرض ہے۔ چنانچہ علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’واعلم أن الفرض نوعان: فرض علماً وفرض عملاً فقط...ويفوت الجواز بفوتها بمعنى أنه لو ترك واحدة منها لا يصح فعل ما بعدها قبل قضاء المتروكة‘‘.(كتاب الصلوة، باب الوتر والنوافل، مطلب في الفرض العلمي والعملي والواجب: 529/2، رشيدية)
اور اسی طرح حلبی کبیر میں ہے :فیجب بتقدیم رکن نحو أن یرکع قبل أن یقرأ ویسجد قبل أن یرکع، هذا التمثیل غیر واقع فی محله؛ لأن الرکوع قبل القرأة والسجود قبل الرکوع غیر معتمد به حتی یفترض عليه إعادة الرکوع بعد القرأة و إعادة السجود بعد الرکوع‘‘. (فصل في سجود السهو، ص:456، رشيدية)
اب یہ جو بھول کی وجہ سے رکن صلوۃ میں تاخیر ہوئی ہے، اس کے لیے آخر میں سجدہ سہو کرنا پڑے گا؛ اس لیے کہ سجدہ سہو جن افعال سے واجب ہوتا ہے، ان کی فہرست میں یہ بھی ہے، حلبی کبیر میں ہے :’’أن سجود السهويجب بستة أشياء فيجب بتقديم ركن... ويجب بتاخير ركن‘‘.(فصل في سجود السهو، ص:456، رشيدية)
لہذا وہ شخص دونوں صورتوں میں یاد ہونے کے ساتھ ساتھ رکوع کرے، سجدہ کا اعادہ کرے اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرے، تو نماز صحیح ہوجائے گی۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:05/241