نماز میں رکوع سے اٹھتے وقت دامن جھاڑنے کا حکم

نماز میں رکوع سے اٹھتے وقت دامن جھاڑنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نماز میں رکوع سے اٹھتے ہوئے کھڑے ہوکر دامن کو جھاڑلینا چاہیے یا نہیں؟ ایک کتاب احکام و آداب طہارت وضوء اور نماز (مصنف: مولانا ارشاد احمد صاحب)، اس میں لکھا ہے کہ آپ ﷺ جب رکوع سے کھڑے ہوتے، تو دامن کو دائیں یا بائیں جانب سے جھاڑ لیتے تھے، تاکہ سرین کی کوئی شکل باقی نہ رہے، اور شامی کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اس بارے میں کیا حکم ہے؟ اور یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جو کام نمازی کے لیے مفید ہو اور اس کو اس کی ضرورت بھی ہو، تو عمل قلیل کے ساتھ اس کے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لہذا صورت مسئولہ میں رکوع سے کھڑے ہوتے وقت ضرورت ہوتو دامن کو دائیں یا بائیں سے عمل قلیل کے ساتھ جھاڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے، جھاڑسکتے ہیں۔
آپ نے مولانا ارشاد احمد صاحب کی کتاب کےحوالہ سے لکھا ہے کہ :آپ ﷺ جب رکوع سے کھڑے ہوتے تو دامن کو دائیں یا بائیں جانب سے جھاڑ لیتے تھے، تاکہ سرین کی کوئی شکل باقی نہ رہے، علامہ شامی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے، لیکن اس میں رکوع کے بجائے آپﷺ کا سجدہ سے اٹھتے وقت دامن کو دائیں یا بائیں سے جھاڑنے کا ذکرہے، چنا نچہ علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہے :’’وفي زمن الصيف: ((كان إذا قام من السجود نفض ثوبه يمنة أو يسرة))‘‘ گرمی کےزمانے میں آپ ﷺ جب سجدہ سے کھڑے ہو تے، تو اپنے کپڑے کو دائیں یا بائیں سے جھاڑتے تھے، تاہم تلاش وبسیار کے باوجود ہمیں حدیث کی کتابوں میں یہ حدیث نہیں مل سکی۔
لما في الشامية :
’’(قوله: وعبثه) هو فعل لغرض غير صحيح، قال في النهاية: وحاصله أن كل عمل هو مفيد للمصلي فلا بأس به، أصله ما روي: «أن النبي صلى الله عليه وسلم: عرق في صلاته فسلت العرق عن جبينه» أي مسحه؛ لأنه كان يؤذيه فكان مفيدا، وفي زمن الصيف كان إذا قام من السجود نفض ثوبه يمنة أو يسرة؛ لأنه كان مفيدا كي لا تبقى صورة، فأما ما ليس بمفيد فهو العبث.اهـ. وقوله كي لا تبقى صورة يعني حكاية صورة الألية كما في الحواشي السعدية‘‘.(كتاب الصلاة، مطلب في الكرهة التحريمية و التنزيهية: 490/2: رشيدية)
وفي الهندية:
’’ولا بأس بأن ينفض ثوبه، كي لا يلتف بجسده في الركوع..... ولا بأس بأن يمسح العرق عن جبهته في الصلاة، كذا في فتاوى قاضي خان، كل عمل هو مفيد لا بأس به للمصلي، وقد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم: ((أنه سلت العرق عن جبهته، وكان إذا قام من سجوده نفض ثوبه يمنة أو يسرة)) وما ليس بمفسد يكره‘‘.(كتاب الصلاة: 164/1: دارالفكر بیروت).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/125