کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری زوجہ وہ ماں کے گھر بیٹھ جاتی ہے، میرے حقوق بھی پورے نہیں کرتی اور مجھ سے خرچہ کا مطالبہ کرتی ہے، کیاوہ خرچہ کا حق رکھتی ہے؟ وہ میرے ساتھ کراچی میں رہنا نہیں چاہتی، میں اپنے بچوں کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں۔
صورت مسئولہ میں ایسی عورت جو شوہر کی حق تلفی بھی کرتی ہو اوراپنی ماں کے گھر بھی رہتی ہو، اسے نان ونفقہ اور شوہر سے خرچے کے مطالبہ کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، اورنہ ہی شوہر پرایسی بیوی کا خرچہ لازم ہے، نیز شریعت مطہرہ نے سات(7) سال تک بچے کی اور نو(9) سال تک بچی کی پرورش کاحق ماں کو دیا ہے، بشرطیکہ بچوں کی ماں بچوں کے کسی نامحرم کے ساتھ نکاح نہ کرے، ورنہ حق پرورش ساقط ہوجائےگی، لہذا بچوں کی عمر اگر مذکورہ مدت سے زیادہ ہو، تواسے اپنے ساتھ رکھنا آپ کا حق ہے، ماں کو شرعا یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ بچوں کو آپ کے ساتھ کراچی جانے سے روکے۔لمافي التنوير مع الدر:
’’( لا ) نفقة لأحد عشر:و (خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود ولو بعد سفره‘‘.(كتاب الطلاق، باب النفقة: 289/5: رشيدية)
وفي التاتارخانية:
’’وسبب وجوب احتباسها عند الزوج إذا كان يتهيأ للزوج الإستمتاع بها، إمابا لوطى أو بدواعي‘‘.(كتاب النفقات، الفصل الأول: 358/5: فاروقية)
وفي التنوير مع الدر:
’’(والحاضنة) أما أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى
لأنه الغالب، ولو اختلفا في سنه فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية‘‘.
وتحته في الشامية:
’’قوله:(ولو جبرا) أي إن لم يأخذه بعد الاستغناء أجبر عليه كما في الملتقى. وفي الفتح: ويجبر الأب على أخذ الولد بعد استغنائه عن الأم لأن نفقته وصيانته عليه بالإجماع. وفي شرح المجمع: وإذا استغنى الغلام عن الخدمة أجبر الأب ، أو الوصي أو الولي على أخذه لأنه أقدر على تأديبه وتعليمه‘‘.(كتاب الطلاق،باب الحضانة:278/5:رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/299