نافرمان بیوی سے متعلق مسائل

نافرمان بیوی سے متعلق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں کہ:
۱…میری زوجہ میرے حقوق پورے نہیں کرتی، میری شادی کو عرصہ سترہ(17) سال ہوگئے ہر وقت مجھے پریشان کرتی رہتی ہے اور مجھے خودکشی کی دھمکی دیتی ہے، میری زوجہ کو شوہر کے حقوق کے بارے میں بتائیں۔
۲…میری زوجہ اوراس کی ماں مجھ سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہیں۔
۳…میں نے اس پریشانی میں اس کی ماں سےسات (7) اگست کو کہا اپنی بیٹی لے جاؤ، میری طرف سےفارغ ہے، اس میں میں نے طلاق کی نیت نہیں کی تھی، نیز دوبارہ نکاح کی صورت میں کوئی شرط نہیں مانوں گا، میاں بیوی کےمعاملات میں اس کےبھائی بہن کوئی نہیں آئےگا۔
وضاحت:لےجاؤ، میری طرف سےفارغ ہے، دونوں میں طلاق کی نیت نہیں تھی۔

جواب

1…واضح رہےکہ دین اسلام ایک مکمل دستورحیات ہے، اس میں جہاں بیوی کےحقوق ہیں، وہاں بیوی پرشوہر کےحقوق کوبھی لازم قراردیاہے، تاکہ طرفین میں محبت و الفت کایہ رشتہ بدستورقائم ودائم رہے، شوہرکےحقوق پامال کرنےاوراسےڈرا دھمکا کر پریشان کرنی والی عورت پراحادیث مبارکہ میں لعنت اوروعیدات وارد ہوئی ہیں، ایسی عورت دین کےساتھ ساتھ اپنی دنیا وآخرت کو بھی تباہ کردیتی ہے، ایسی عورت دنیا میں بھی اپنی زندگی جہنم بنادیتی ہےاور آخرت کاعذاب بھی الگ ہے، لہذا بیوی کوچاہیے کہ وہ شوہر کےحقوق کی ادائیگی کو اپنا فرض جانے اور اسے اپنے لئے دنیا وآخرت کےسنورنے کا سامان سمجھے۔
۲…شرعا ساس کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ داماد سے اپنی بیٹی کے لئے طلاق کا مطالبہ کرے، میاں بیوی کےبیچ منافرت اورمفارقت پیدا کرنا اور ان کوایک دوسرے سےبدظن کرنا موجب گناہ  بھی ہے اور اللہ کے رسولﷺ نے ایسے شخص کومسلمانوں کی جماعت سے خارج بھی  قرار دیا ہے، لہذا ان کے درمیان صلح اوران کی زندگی کوخشگوار بنانےکی کوشش کرنی چاہیئے، باقی شوہر کا اگر بیوی کے ساتھ اچھا سلوک ہےاوربیوی کےحقوق بجا لاتا ہو، توبیوی کے پاس بھی ایسے شوہر سے طلاق لینے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔
۳…صورت مسئولہ میں اس لفظ سےآپ کی بیوی پرایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے، اب دوبارہ ایک ساتھ رہنے کے لئے تجدید نکاح ضروری ہے، اور آئندہ کے لیے آپ کے پاس فقط دوطلاقوں کا اختیار باقی رہےگا۔
لمافي صحيح البخاري:
’’قال النبي صلى الله عليه وسلم: إذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها لعنتها الملائكة حتى ترجع‘‘.(كتاب النكاح، باب إذا باتـت المرأة مهاجرة فراش زوجها، رقم الحديث:3538، ص:608: دارالسلام)
وفي سنن أبي داود:
’’حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ حُصَيْنٍ عَنِ الشَّعْبِىِّ عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ أَتَيْتُ الْحِيرَةَ فَرَأَيْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانٍ لَهُمْ فَقُلْتُ رَسُولُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُسْجَدَ لَهُ قَالَ فَأَتَيْتُ النَّبِي -صلى الله عليه وسلم- فَقُلْتُ إِنِّى أَتَيْتُ الْحِيرَةَ فَرَأَيْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانٍ لَهُمْ فَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَكَ. قَالَ: أَرَأَيْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِى أَكُنْتَ تَسْجُدُ لَهُ». قَالَ قُلْتُ لاَ. قَالَ: فَلاَ تَفْعَلُوا لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لأَحَدٍ لأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ يَسْجُدْنَ لأَزْوَاجِهِنَّ لِمَا جَعَلَ اللَّهُ لَهُمْ عَلَيْهِنَّ مِنَ الْحَقِّ‘‘.(كتاب النكاح، باب فِى حَقِّ الزَّوْجِ عَلَى الْمَرْأَةِ، رقم الحديث:2140، ص:209: دارالسلام)
وفيه أيضا:
’’عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا أَوْ عَبْدًا عَلَى سَيِّدِهِ»‘‘.(كتاب الطلاق، باب فِيمَنْ خَبَّبَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا، رقم الحديث:2177، ص:220: بيروت)
وفي مشكوة المصابيح:
وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ’’ثلاثة لا تقبل لهم صلاة ولا تصعد لهم حسنة العبد الآبق حتى يرجع إلى مواليه فيضع يده في أيديهم والمرأة الساخط عليها زوجها والسكران حتى يصحو‘‘. رواه البيهقي في شعب الإيمان.( كتاب النكاح، باب عشرة النكاح، رقم الحديث:3271، ص:242: بيروت)
وفي الشامية:
’’قوله:سرحتك وهو "رهاء كردم" لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري‘‘.(كتاب الطلاق، باب الكنايات: 465/4: رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/298