کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میاں بیوی کے آپس میں جھگڑنے کے بعد عورت ناراض ہوکر اپنے بھائیوں کے گھر چلی گئی، اور کہا کہ جب تک شوہر کے گھر والے مجھے لینے نہیں آئیں گے، تب تک میں نہیں جاؤں گی، شوہر کو غصہ آیا اور کہا کہ اگر تم میں سے کوئی لینے گیا، توطلاق پھر سمجھانے پر فورا دوبارہ کہا کہ: ’’میں نے چھوڑ دیا‘‘، ’’میں نے چھوڑ دیا‘‘ پھر بیوی خود شوہر کے گھر آگئی، پھر ایک سال بعد دوبارہ یہی عورت ناراض ہوکر اپنے بھائیوں کے گھر چلی گئی، کسی نے شوہر سے کہا کہ آپ کی بیوی کہتی ہے کہ ہمارے بچے نہیں ہوتے، اسی لیے میں ایسی ہوں، اس بات پر شوہر نے کہا کہ میں تو والدہ کی موت کا انتظار کر رہاہوں، اور پھر غصہ میں کہا: ’’توپھر اپنے گھر چلی جائے‘‘۔
شوہر کا یہ کہنا کہ: ’’میں نے چھوڑ دیا‘‘، ’’میں نے چھوڑ دیا‘‘ دو مرتبہ کہنے سے عورت پر دو طلاقیں واقع ہوگئیں، جس کے بعد بغیر حلالہ شرعیہ اور تجدید نکاح کے رجوع کرنا جائز ہے، اس کے بعد شوہر کا یہ کہناکہ: ’’ تو پھر اپنے گھر چلی جائے‘‘ میں شوہر کی نیت اگر طلاق کی تھی، تو عورت طلاق مغلظہ کے ساتھ شوہر پر حرام ہوجائے گی، اور پھر بغیر حلالہ شرعیہ کے رجوع کرنا جائز نہیں ہوگا۔لما في التنزيل:
﴿ِإنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾.(البقرة:229)
وفي الرد:
فإذا قال: ’’رها كردم‘‘ أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا، لأنه غلب في عرف الناس استعماله في الطلاق.(كتاب الطلاق، باب الكنايات: 519/4: رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/163