کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری آپ سے ایک اہم شرعی مسئلہ میں رہنمائی درکار ہے، میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور میری ماہانہ تنخواہ سے پورے سال باقاعدہ طور پر ایک مخصوص رقم ’’میڈیکل انشورنس کارڈز‘‘ کی مد میں کاٹی جاتی ہے، یہ کٹوتی ادارہ خود کار نظام کے تحت کرتا ہے، اور ملازمین کو اس سے انکار کا اختیار نہیں ہوتا، اس انشورنس کے تحت میں نے اپنے والدین، بیوی اور بچوں کو کور کر رکھاہے، اور اس کے ذریعے ہسپتالوں سے مفت علاج، دوائیاں، آپریشن، ٹیسٹ وغیرہ کی سہولت حاصل ہوتی ہے، یعنی بیماری کی صورت میں اخراجات انشورنس کمپنی ادا کرتی ہے، ملازم یا خاندان کو نہیں، اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا شرعی لحاظ سے اس قسم کے میڈیکل انشورنس جس میں تنخواہ سے رقم کاٹ کر ادارہ ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو علاج معالجہ کی سہولت فراہم کرتا ہے جائز ہے یا نہیں ؟براہ کرم قرآن وسنت اور فقہائے کرام کے اقوال کی روشنی میں واضح شرعی حکم سے مطلع فرمائیں تاکہ میں سکون قلب کے ساتھ اس سہولت کو استعمال کر اسکوں یا اس سے اجتناب کر سکوں، جزاک اللہ خیراً والسلام۔
نوٹ: سائل کامقصد اپنی ذات کے متعلق سوال ہے کہ وہ اس نظام کے تحت اپنا اور اپنی فیملی کا علاج کرواسکتے ہیں یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں جب ادارہ خود ہی اپنی طرف سے ملازم کا میڈیکل انشورنس کراتا ہے، اور خود ہی انشورنس کی قسطیں جمع کرتا ہے، ادارہ انشورنس کے نام پر جو رقم کاٹتا ہے اس میں آپ کا عمل دخل نہیں ہوتا توآپ اپنا اور اپنی فیملی کا علاج کرواسکتے ہیں۔لمافي التنوير مع الدر:’’(هي)لغة اسم للاجرة، وهو ما يستحق على عمل الخير ولذايدعى به، وشرعا:(تمليك نفع) مقصود من العين(بعوض)‘‘.(كتاب الاجارة: 5/9، رشيدية)وفي البحر الرائق:’’هي بيع منفعة معلومة بإجرة معلومة‘‘.(كتاب الاجارة: 506/7، رشيدية)وفي البدائع الصنائع:’’وأمامعنى الإجارة،فالإجارة بيع المنفعة لغة‘‘.(كتاب الاجارة، فصل في ركن الإجارة: 517/5، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:193/196