میڈیکل اسٹور والوں کا بغیرسند (سرٹیفکیٹ) کے دوائیاں بیچنا

میڈیکل اسٹور والوں کا بغیرسند (سرٹیفکیٹ) کے دوائیاں بیچنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل اکثر میڈیکل وغیرہ میں لوگ بغیر سند کے دوائیاں بیچ رہےہیں اور اس میں اکثر میڈیکل والے پکڑے بھی جاتے ہیں،  جس کی وجہ سے ان پر  پابندی لگائی جاتی ہے ،تو اس پابندی کی وجہ سے بعض ڈاکٹر اپنی سند کو کسی میڈیکل میں رکھ لیتے ہیں اور ان میڈیکل والوں سے کچھ رقم لیتے ہیں ،تو کیا ڈاکٹروں کا اس طرح معاوضہ یا رقم وصول کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حکومت کی طرف سے میڈیکل اسٹور کھولنے کی اجازت صرف ان لوگوں کو ہے، جو باقاعدہ  طورپر  اس کی تعلیم حاصل کرکے  حکومت سے  اس کا سرٹیفکیٹ جاری کرواتے ہیں ، اس کے علاوہ  لوگوں کو اس کی  اجازت نہیں ہوتی اور  کسی ملک  کے قوانین جب تک قرآن وحدیث کے مخالف نہ ہوں ، تو ان کی پاسداری کرنا ضروری ہے۔
مذکورہ صورت میں ڈاکٹروں  کا میڈیکل والوں کے پاس اپنا سرٹیفکیٹ رکھنا  یہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی ، جھوٹی گواہی اور دھوکہ  ہے ،لہذا  ڈاکٹروں  کے لئے ایسا کرنا نہ تو  معاوضہ لے کرنا جائز ہے، اور نہ بلا معاوضہ۔
لما في صحيح البخاري:
عن أنس رضي الله عنه قال: سئل النبي صلى الله عليه و سلم عن الكبائر قال:((الإشراك  بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، وشهادة الزور)).
عن عبد الرحمن بن أبي بكرة عن أبيه رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه و سلم ((ألا أنبئكم بأكبر الكبائر)). ثلاثا قالوا بلى يا رسول الله قال:(الإشراك بالله وعقوق الوالدين، وجلس وكان متكئا فقال: ألا وقول الزور). قال فما زال يكررها حتى قلنا ليته يسكت.(كتاب الشهادة، باب ما قيل في شهادة الزور، رقم الحديث:2653-  2654، ص:430:دارالسلام للنشر)
وفي الشامية:
’’قوله:(لوجوب طاعة ولي الأمر) بالآية الشريفة ومن طاعته تصديقه  قال العلامة البيري في أواخر شرحه على الأشباه و النظائر عند الكلام على شروط الإمامة ثم إذا وقعت البيعة من أهل الحل والعقد صار إماما يفترض إطاعته كما في خزانة الأكمل وفي شرح الجواهر تجب إطاعته فيما إباحه الدين وهو ما يعود نفعه إلى العامة كعمارة دار الإسلام والمسلمين مما تناوله الكتاب والسنة والإجماع  وفي النهاية وغيرهما روي عن أبي يوسف لما قدم بغداد صلى بالناس العيد وكلفه هارون الرشيد وكبر تكبير ابن عباس رضي الله عنهما‘‘.(كتاب الهبة، مطلب طاعة أولي الأمر واجبة،69/11:رشيدية)
وفي الدر مع الرد:
’’قوله:( أمر السلطان إنما ينفذ ) أي يتبع ولا تجوز مخالفته وسيأتي قبيل الشهادات عند قوله أمرك قاض بقطع أو رجم الخ التعليل بوجوب طاعة ولي الأمر  وفي ط عن الحموي أن صاحب البحر ذكر ناقلا عن أئمتنا أن طاعة الإمام في غير معصية واجبة فلو أمر بصوم يوم وجب‘‘.(كتاب القضاء، مطلب طاعة الإمام واجبة، 132/8:رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/112