میٹھے پانی کی لائن میں اچانک گٹر کا پانی آجائے تو ٹینکی کا حکم

میٹھے پانی کی لائن میں اچانک گٹر کا پانی آجائے تو ٹینکی کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے یہاں میھٹے پانی کی جو لائن ہے اس میں کبھی کبھار بالکل اچانک گٹر کا گندا پانی آجاتا ہے جو انتہائی بدبو دار ہوتا ہے اب ہمارے یہاں کئی بار ایسا ہو جاتا ہے کہ ہم کبھی موٹر چلائی ہوتی ہے اور درمیان میں گندا پانی بھی آکر ٹینکی میں مل جاتا ہے پانی کو بار بار ہم چیک کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کبھی کبھار گندا پانی ٹینکی میں چلا جاتا ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس صورت میں جب گندا پانی مل جاتا ہے، تو پانی کی پاکی اور ناپاکی کے بارے شریعت کا کیا حکم ہے؟
اگر ناپاک ہے تو اس کو پاک کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ مزید ایک بات کی وضاحت کرتا ہوں وہ یہ کہ میرے والد صاحب نے محلہ کی مسجد کے امام صاحب سے معلوم  کیا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ موٹر چلا کر پانی ٹینکی میں چڑھا دیں  یعنی جب صاف پانی آرہا ہواور نیچے سے گھر میں کوئی نلکا کھول دیں تو چونکہ اس صورت میں چونکہ یہ جاری پانی ہو جائے گا لہذا ٹینکی پاک ہو جائے گی لیکن چونکہ ہمارے امام صاحب باقاعدہ کسی دینی ادارے کے فاضل نہیں اس لیے تشفی نہیں ہو رہی ہے اور ہم نے چونکہ اس طریقہ پر کئی دن تک عمل بھی کیا ہے لہذا مہربانی فرما کر یہ بھی بتا دے کہ اگر اس طریقے سے ٹینکی پاک نہیں ہو گئی تھی تو اس صورت میں ان نمازوں کا کیا حکم ہو گا کہ جو اس پانی سے وضو کر کے پڑھی گئی ہیں؟
وضاحت:مذکورہ بالا تفصیل چھت کی ٹینکی کے متعلق ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں ٹینکی میں گٹر کا پانی مل جانے کی وجہ سے ٹینکی ناپاک شمار ہو گی، اور ٹینکی کو پاک کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ موٹر کے ذریعہ  ٹینکی کو اس حد تک بھر دیا جائے کہ ٹینکی  کے اوپر سے اتنا پانی بہہ جائے، کہ پانی کی بدبو ختم ہو کر اپنی اصلی حالت پر آ جائے، تو پانی پاک ہوجائے گا۔ نیز ٹینکی پاک کرنے کے لیے سوال میں مذکور طریقہ اختیار کرنے کے بعد جو نمازیں ادا کی ہے، وہ واجب الاعادہ نہیں ہیں۔
لما في الفتاوى الولوالجية:
’’الماء إذا أنتن وهو كثير وإن علم بوقوع النجاسة أو جيفة فيه يتنجس الماء‘‘.(كتاب الطهارة، الفصل الأول في الحياض والابار، 39/1: الفاروقية)
وفي الشامية:
’’وإذا وصل إلى الحياض في البيوت متغيرا ونزل في حوض صغير أو كبير فهو نجس وإن زال تغيره بنفسه لأن الماء النجس لا يطهر بتغيره بنفسه إلا إذا جرى بعد ذلك بماء صاف فإنه حينئذ يطهر‘‘.(كتاب الطهارة، تنبيه مهم ...، 373/1: رشيدية)
وفي الفتاوى الهندية:
’’الماء الجاري بعد ما تغير أحد أوصافه وحكم بنجاسته لا يحكم بطهارته ما لم يزل ذالك التغير بأن يرد عليه ماء طاهر حتى يزيل ذالك التغير، كذا في المحيط‘‘.(كتاب الطهارة، الباب الثالث في المياه: 18/1: الماجدية)
وفي الشامية:
’’قوله: (بمجرد جريانه) أي بأن  يدخل من جانب ويخرج من آخر حال دخوله وإن قل الخارج‘‘.( كتاب الطهارة، مطلب يطهر الحوض بمجرد الجريان: 381/1، رشيدية).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 189/41