کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم تین بھائی تھے اورایک بھائی کا چار ماہ قبل انتقال ہوگیا اور اس مرحوم بھائی کی کوئی اولاد نہیں ہے صرف ایک بیوی ہے اور اس مرحوم بھائی کی ملکیت میں دوعدد فلیٹ تھے جس میں سے ایک میں خود رہائش پذیر تھے اور ایک کرایہ پر دیا ہواہے اور اس فلیٹ کا کرایہ تاحال مرحوم بھائی کی بیوی وصول کررہی ہے اور ایک میں رہ رہی ہے۔
۱…اب سوال یہ ہے کہ مرحوم بھائی کی بیوی عدت مکمل ہونے کےبعد اس فلیٹ میں رہائش اختیار کرسکتی ہے؟ اور کیا فلیٹ کا کرایہ بھی وصول کرسکتی ہے؟ جبکہ اس گھر کی مالک ہونے کی دعویدار ہے کہ اس میں کسی کا حصہ نہیں، جبکہ ان دونوں فلیٹوں کی قیمت تقریبا /90,00,000 (نوے لاکھ روپے) ہے اور ان پر بطور قرض بجلی کا بل تقریبا کم وبیش 10,00,000 (دس لاکھ روپے) سے زائد ہے، تو اس میں ہر بھائی کا کتنا حصہ ہوگا اور اس بیوہ کو کتنا ملے گا۔
۲…اور بیوی کا ملکیت کا دعوی کرنا شرعا درست ہے؟ اگر ایک بھائی اپنا حصہ اس بیوہ کو چھوڑنا چاہے تو دوسرے بھائی کوحصہ ملے گا اور یہ کہ اگر یہ مکان فروخت نہ کرنا چاہے اور میرے حصہ میں جتنی رقم آتی ہے اس کی ادائیگی کے لئے مہلت لے سکتاہوں؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں جوابات عنایت فرماکر ممنون فرمائیں۔
۱…واضح رہے کہ آدمی کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد کے ساتھ تمام ورثاء کا حق متعلق ہوجاتا ہے، کسی وارث کے لیے تقسیم سے پہلے دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر پوری جائیداد سے نفع اٹھانا جائز نہیں ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر بیوی کی عدت گذر گئی ہے، تو اس کے لیے مزید اس مکان میں رہنے کی گنجائش ہے مگر دوسرے فلیٹ کا کرایہ اپنے پاس رکھنا اور بٖغیر کسی سبب کے ان فلیٹوں میں ملکیت کا دعوی کرنا جائز نہیں ہے، اس میں دوسرے ورثاء کا بھی حق ہے۔
۲… صورت مسئولہ میں تقسیم جائیداد کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے ترکہ میں سے ان کے کفن دفن کے درمیانی اخراجات نکالے جائیں، بشرطیکہ کسی نے اپنی طرف سے بطور احسان کے ادا نہ کئے ہوں، اس کے بعد اگر ان کے ذمے واجب الاداء قرض یا دیگر مالی واجبات ہوں، تو وہ ادا کیے جائیں، پھر مرحوم نے اگر کسی غیر وارث کے لئے کوئی جائز وصیت کی ہو، تواسے بقیہ ترکہ کے ایک تہائی میں سے نافذ کردیا جائے، پھر بقیہ ترکہ کو ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردیا جائے۔
لہذ ا مذکورہ جائیداد کے کل آٹھ حصے کیے جائیں جن میں سے بیوہ کو دو(2)اور بھائیوں میں سے ہرایک کو تین (3)حصے دے دیے جائیں، فیصدی اعتبار سے بیوہ کو 25اور بھائیوں میں سے ہر ایک کو 37.5حصے دے دیے جائیں۔
چنانچہ اگر قابل تقسیم رقم نوے لاکھ 900000روپے ہے تو بیوہ کو بائیس لاکھ پچاس ہزار 2250000اور بھائیوں میں سے ہر ایک کو تینتیس لاکھ پچہتر ہزار 3375000روپے ملیں گے۔
مزید تفصیل کے لیے نقشہ ذیل ملاحظہ فرمائیں :
نمبرشمار |
رشتہ |
عددی حصے |
فیصدی حصے |
نقدرقم |
1 |
بیوہ |
2 |
25% |
2,250,000 |
2 |
بھائی |
3 |
37.5% |
3,375,000 |
3 |
بھائی |
3 |
37.5% |
3,375,000 |
لمافي التنزيل الحكيم:
﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾. (سورة النساء، آية :11)
وفيه أيضاً :
﴿وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ...﴾.(سورة النساء، آية:12)
وفي السراجي :
’’تتعلق بتركة المیت حقوق اربعة مرتبة، الاول: یبدأ بتکفينه وتجهيزه من غیر تبذیر ولاتقتیر ثم تقضی دیونه من جمیع مابقی من ماله، ثم تنفذ وصایاه من ثلث مابقی بعد الدین، ثم یقسم الباقی بین ورثته بالکتاب والسنة واجماع الامة‘‘.(المقدمة، ص:10-14: البشری)
وفي الدر :
’’(وكل) من شركاء الملك (أجنبي) في الامتناع عن تصرف مضر (في مال صاحبه) لعدم تضمنها الوكالة‘‘.
وتحته في الرد :
’’ قوله: (عن تصرف مضر) احترز به عن غير المضر كالانتفاع ببيت وخادم وأرض في غيبة شريكه على ما سيأتي بيانه‘‘.(كتاب الشركة: 461/6: رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/136