کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی غسل میت کے عوض میں پیسے لیتا ہے، اور اگر کوئی پیسے نہ دے تو ناراض ہو جاتا ہے۔ آیا یہ رقم لینا جائز ہے یا نہیں؟ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ورثاء میت بخوشی میت کو غسل دینے کے عوض میں رقم دیں، تو اس کا کیا حکم ہے؟
جب میت کو غسل دینے والا اور تجہیز و تکفین کرنے والا اس ایک آدمی کے سوا کوئی نہ ہو، تو اس پر فرض ہو جاتا ہے (کیونکہ یہ فرض کفایہ ہے) اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں، البتہ جب غسل دینے اور تجہیز و تکفین کے لیے دیگر افراد ہوں تو اس کے لیے اجرت لینا جائز ہے لیکن خلاف اولی ہے، جیسا کہ رد المحتار شامی میں ہے:’’(والأفضل أن يغسل) .الميت (مجانا فإن ابتغى الغاسل الأجر جاز إن كان ثمة غيره وإلا لا) لتعينه‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ: 199/2: سعید)
یعنی افضل تو غسل وغیرہ کا بلا اجرت کرنا ہے، لیکن اگر اجرت لے کر کیا تب بھی جائز ہے، بشرطیکہ اور لوگ بھی ہوں جو اس کو انجام دے سکتے ہوں۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:05/17