کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ خاندان اور قوم کے چند افراد مل کر ایک کمیٹی بنائے، اور اس کے بڑے کے پاس ہر فرد ماہانہ کچھ رقم جمع کرے، جب کبھی ان خاندانوں میں فوتگی ہوجائے، تو یہ کمیٹی والے ان پیسوں سے میت کی قبر، کفن، ٹینٹ اور کرسیوں کا بندوبست کرتے ہیں، کیا اس طرح کمیٹی بنانا اور کرسیاں رکھنا اور دیگیں منگوانا جائز ہے؟
واضح رہے کہ میت کی تجہیز، تکفین اور تدفین وغیرہ کے لئے مذکورہ طریقہ سے فنڈنگ (رقم جمع کرنا) سود، شبہ قماردھوکہ جیسے مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعا درست نہیں، اس سے اجتناب کیا جائے، البتہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر ثواب کی نیت سے ریا و نمود اور رسم و رواج بنائے بغیر اہل میت کی مدد و نصرت کرنا چاہے تو جائز، بلکہ مستحسن ہے، جس پر وہ عند اللہ ماجور ہوگا۔لما في التنزيل:
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾.(سورة المائدة، رقم الآية:90)
وفي جامع الترمذي:
عن عبدالله بن جعفررضي الله تعالى عنه قال: لما جاء نعي جعفر قال النبي ﷺ ’’اصنعوا لأهل جعفر طعاما فإنه قد جاءهم ما يشغلهم‘‘.(كتاب الجنائز، بــاب مـا جاءفي الطعام يصنع لأهل الميت، رقم الحديث:998، ص:318، دارالسلام)
وفي مشكاة المصابيح:
عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :’’ ألا لا تظلموا، ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه‘‘.(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية: 544/1، دار الكتب العلمية)
و في الرد:
’’ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت، لانه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة‘‘.(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة: 175/3، رشيدية).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 190/193