مہر میں زمین لکھوانے کا حکم

Darul Ifta

مہر میں زمین لکھوانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کے پانچ بیٹے ہیں اور اس کی دس کنا ل زمین ہے، اور یہ شخص اور اس کے بیٹے سب ایک ساتھ رہتے ہیں اور اس شخص نےایک بیٹے کا نکاح کروا کر مہر میں ایک کنال زمین لکھ دی  اور یہ شخص مرگیا اور اس کے بیٹے کہتے ہیں کہ موت کو یہ ایک کنال زمین جو مہر میں لکھی تھی، یہ نہیں دیا جائے گا اور جس کی شادی ہوئی تھی، وہ کہتا ہے یہی میں مہر میں دوں گا، باقی زمین جو 9 کنا ل ہے وہ میراث میں تقسیم ہوگی، تو یہ مسئلہ قرآن و حدیث کی روشنی میں حل فرمائیں۔
وضاحت:باپ مہر کا ضامن نہیں بنا تھا۔

جواب

صورت مسئولہ میں باپ عورت کی طرف سے مہر کا ضامن نہیں بنا تھا ،بلکہ مہر میں لکھوایا تھا ،تویہ باپ کی طرف سےہبہ ہوگا اور ہبہ میں قبضہ شرط ہے، لہذا عورت کو چاہیے تھا کہ باپ کی زندگی ہی میں اس مہر پر قبضہ کرتی، مگر اس عورت نے باپ کی زندگی میں اس مہر پر قبضہ نہیں کیا ،تو باپ کے مرنے کے بعد باپ کے ترکہ میں سے اس عورت کو وہ مہر میں نہیں دی جائیگی۔
اب شوہر پر لازم ہےکہ مہر میں جو مسمیٰ(جو زمین) طے ہوئی تھی، وہ خرید کردے دے، اگر اس کے خریدنے پر قادر نہیں، تواس کی قیمت ادا کرےاور وہ دس کنال زمین ورثہ میں تقسیم ہوگی۔
لما في البحر الرائق:
’’وفي البزازية: إذا أعطى الأب أرضا في مهر امرأته ثم مات الأب قبل قبض المرأة لا تكون الأرض لها لأنها هبة من الأب لم تتم بالتسليم فإن ضمن المهر وأدى الأرض عنه ثم مات قبل التسليم كانت الأرض للمرأة لأنه بيع فلا يبطل بالموت‘‘.(كتاب النكاح، باب المهر، 307/2، رشيدية)
وفي حاشية ابن عابدين:
’’ولو أعطى ضيعة بمهر امرأة ابنه ولم تقبضها حتى مات الأب فباعتها المرأة لم يصح إذا ضمن الأب المهر ثم أعطى الضيعة به فحينئذ لا حاجة إلى القبض‘‘.(كتاب النكاح، مطلب في ضمان الولي المهر، 282/4، رشيدية)
وفيه أيضاً:
’’لأن المهر مال يلزم ذمة الزوج ولا يلزم الأب بالعقد إذ لو لزمه لما أفاد الضمان شيئاً‘‘.(كتاب النكاح، مطلب في ضمان الولي المهر، 280/4، رشيدية).فقط. واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/342

footer