کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی معتدل رفتار کے ساتھ بائیک چلارہا ہو پھر اچانک کوئی بوڑھا آدمی آگے آجائے، انسانی طاقت کے بقدر روکنے کی کوشش بھی کی گئی ہولیکن پھر بھی بائیک کے دائیں جانب لگا ہوا شیشہ اور سپوگارڈ سے ٹکر لگ جائےاور اس صورت میں بائیک کا آگے والا ٹائر اسے نہ لگا ہو (یعنی بلکل سامنے سے نہ ٹکرایا ہو) اور اس آدمی کو زخم لگ جائے پھر اس آدمی کا علاج کرایا جائے اس کے بعد کچھ عرصہ مذکورہ شخص کا انتقال ہوجائے مکمل طور پر صحت یابی سے پہلے تو اس بائیک والے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے؟
صورت مسئولہ میں ڈرائیور کے فعل سے ہی اس شخص کو زخم لگا اور اسی زخم سے اس کا انتقال ہوا، یہ قتل خطا کے زمرے میں آتا ہے، اور قتل خطا میں تین احکام ہوتے ہیں۔
۱… کفارہ: مسلسل دوماہ کے روزے رکھنا لازم وضروری ہے۔
۲…دیت:عاقلہ پر دیت دینا لازم ہے،اس کی ادائیگی میں پہلا درجہ اہل دیوان،(ہم پیشہ، ایک محکمہ کے ملازمین)کا ہے، اگر اہل دیوان نہ ہوں تو پھر ڈرائیور کے رشتے دار عاقلہ ہوں گے،عاقلہ سے دیت کی وصولی تین سال میں ہوگی۔
۳…میراث سے محروم:قاتل میراث سے محروم رہے گا،اگر مقتول قاتل کا مورث ہو۔لما في التنزيل:
’’وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ. فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ‘‘.(سورة النساء:92)
وفي التنوير مع الدر:
’’( وموجبه) أي موجب هذا النوع من الفعل وهو الخطأ وما جرى مجراه (الكفارة والدية على العاقلة) والإثم دون إثم القتل إذا الكفارة تؤذن بالإثم لترك العزيمة‘‘.(كتاب الجنايات، 163/10، رشيدية)
وفيه أيضا:
’’(والعاقلة أهل الديوان) وهم العسكر....(لمن هو منهم فيجب عليهم كل دية وجبت بنفس القتل)....(فتؤخذ من عطاياهم)....(في ثلاث سنين) من وقت القضاء... (وإن لم يكن) القاتل (من أهل الديوان فعاقلته قبيلته) وأقاربه‘‘۔(كتاب المعاقل، 344/10، رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:189/45