کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک زمین ہے جو مسجد اور تبلیغی مرکز کے نام پر خریدی گئی، زمین کی خریداری اور مسجد کی تعمیر میں ہر ساتھی نے حصہ لیا، اس کے بعد چونکہ کل زمین کے کاغذات ایک ساتھی کے نام پر تھے، کئی سال گزرگئے مذکورہ ساتھی نے یہ مسجد اور مرکز کسی تنظیم کو لکھ کر دیا، ان کے نام پر ساری زمین بمع مسجد کردی، اس تنظیم نے اس جگہ تعمیراتی کام کیے، اس کے بعد تبلیغی جماعت کے ساتھیوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی، معاملات ہوتے رہے، اب بات یہاں تک پہنچی ہے کہ تنظیم والے کہتے ہیں کہ ہم نے اس جگہ تعمیرات کی ہیں اس کا خرچہ ہمیں دیا جائے، اب چونکہ وہ مکمل خرچہ ما نگ رہے ہیں اور تبلیغی ساتھی یہ کہتے ہیں کہ ہم کم خرچہ دیں گے، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ چونکہ مذکورہ زمین جس ساتھی نے لکھ کر دی تھی، اس نے اپنے ساتھیوں سے اجازت نہیں لی تھی، نہ مشورہ کیا تھا، اب تنظیم والوں نے غیر کی زمین میں تعمیرات کی ہیں، تو اب انہیں کتنا خرچہ دیا جائے، آیا مکمل تعمیر کا، یا صرف ملبے کا خرچہ دیا جائے گا؟
وضاحت:مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ:
۱…یہ زمین ایک کالونی میں ہے، اس کالونی کے تمام پلاٹ اور یہ وقف شدہ زمین تمام ایک شخص کے نام پر تھی، پھر اس شخص نے وہ موقوفہ زمین کسی تنظیم کے نام کردی، انہوں نے وہاں مسجد و مرکز کے بجائے یونیورسٹی یا کوئی اکیڈمی وغیرہ بنانا شروع کی ہے۔
۲…اس تنظیم کو معلوم تھا کہ یہ زمین وقف کی ہے، لیکن ان کو بڑی جگہ درکار تھی، اس لیے انہوں نے اس جگہ کام شروع کردیا، مذاکرات چلتے رہے اب اس درجے پر پہنچے ہیں کہ مکمل تعمیر کا خرچہ دیں، یا صرف ملبے کا؟
واضح رہے کہ وقف کی زمین میں غیر واقف کے لیے تصرف کرنا جائز نہیں، لہذا مذکورہ صورت میں چونکہ تنظیم والوں کو معلوم تھا کہ زمین مسجد و مرکز کے لیے وقف ہے، اس کے باوجود انہوں نے تعمیراتی کام کیے ہیں، اس لیے ناجائز عمل کے مرتکب ہوئے، ان پر توبہ و استغفار لازم ہے اور یہ بھی ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تعمیر ہٹاکر زمین مسجد ِکمیٹی کے حوالے کریں اور اگر مسجد کی کمیٹی والے اس عمارت کو خریدنا چاہیں، تو صرف ملبے کی قیمت ادا کرکے اس عمارت کو خرید سکتے ہیں۔وفي الدر:’’لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه‘‘.(كتاب الغصب،334/9، رشيدية)وفي الدرمع الرد:’’(ومن بنى أو غرس في أرض غيره بغير إذنه أمر بالقلع والرد) لو قيمة الساحة أكثر كما مر (وللمالك أن يضمن له قيمة بناء... (إن نقصت الأرض به)‘‘.’’(قوله: بغير إذنه) فلو بإذنه فالبناء لرب الدار، ويرجع عليه بما أنفق‘‘.(كتاب الغصب، مطلب شرى دارا وسكنها...، 326/9، رشيدية)وفيه أيضا:’’وبالجملة فإنما يرجع إذا بنى فيها أو غرس بقيمة ما يمكن نقضه وتسليمه إلى البائع فلا يرجع بقيمة جص وطين‘‘.’’قوله:(بقيمة ما يمكن نقضه وتسليمه) أي بعد أن يسلمه للبائع كما مر، وهذا إن لم يكن عالما بأن البائع غاصب فلو علم لم يرجع لأنه مغتر لا مغرور‘‘.(كتاب البيوع، مطلب لاعبرة بتاريخ الغيبة: 474/7، رشيدية).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 192/158