کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی آدمی آج کل مہر فاطمی دینا چاہے اگر وہ اس مہر کو معجل نہ دے بلکہ کچھ معجل اورکچھ مؤجل دے، تو کیا اس طرح مہر ادا کرنے سے مہر فاطمی جو کہ مسنون ہے وہ سنت ادا ہوگی یا نہیں؟ یا سنت کی ادائیگی کے لیے مہر فاطمی کا معجل ہونا شرط ہے۔
شریعت نے مہر کی زیادہ مقدار متعین نہیں کی، جتنی مقدار ادا کرنا سہل ہواور لڑکی کے حالات کے بھی مناسب ہو، تجویزکرلیاجائے، البتہ مہر فاطمی دینا مستحب ہے، خواہ معجل ہو یا مؤجل ہو یا بعض معجل اوربعض مؤجل۔لمافي بذل المجهود:
حدثنا محمد بن عبيد، نا حماد بن زيد، عن أيوب، عن محمد، عن أبي العجفاء السلمي قال: خطبنا عمر -رضي الله عنه- فقال:’’ألا لا تغالوا بصدق النساء، فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا أو تقوى عند الله كان أولاكم بها النبي -صلى الله عليه وسلم-، ما أصدق رسول الله -صلى الله عليه وسلم- امرأة من نسائه، ولا أصدقت امرأة من بناته أكثر من ثنتي عشرة أوقية‘‘.(كتاب النكاح، باب الصداق، رقم الحديث:2106 :16/8: بيروت).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/267