کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ موبائل اکاؤنٹ مثلا ایزی پیسہ یا جیز کیش کے ذریعے زکوۃ بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟اور زکوۃ کے اس رقم کو اکاؤنٹ سے نکالنے پر جو کٹوتی آتی ہے، وہ زکوۃ میں شمار ہوگی، یا اس رقم کو دوبارہ زکوۃ میں دینا پڑے گا؟ کیا بینک اکاؤنٹ کے ذریعے زکوۃ بھیجنا جائز ہے؟
اور اسی طرح قرض کی رقم کو مذکورہ اکاؤنٹس کے ذریعے بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اس میں جو کٹوتی آتی ہے، وہ قرض دار کے ذمے لازم ہے یا قرض خواہ کے ذمے؟
واضح رہے کہ ایزی پیسہ ، جیز کیش اور بینک اکاؤنٹ کے ذریعہ زکوۃ اور قرض دونوں بھیجنا جائز ہے، اور زکوۃ کی اس رقم کو ان مذکورہ اکاؤنٹس سے نکالنے پر جو کٹوتی ہوتی ہے وہ زکوۃ میں شمار نہیں ہوگی، بلکہ اس رقم کو دوبارہ ادا کرنا ضروری ہے، بہتر یہ ہے کہ زکوۃ کے ساتھ اس کٹوتی کے بقدر رقم کو بھی بھیج دیا جائے، نیز قرض کی رقم کو مذکورہ اکاؤنٹس سے نکالنے پر جو کٹوتی ہوتی ہے، وہ مقروض( قرض دار) کے ذمہ لازم ہوتی ہے۔لما في الدر مع الرد:
’’و التوكيل بقبض القرض صحيح‘‘.
’’قوله:(بقبض القرض) بأن يقول الرجل: أقرضني ثم يوكل رجلا بقبضه. بحر عن القنية‘‘.(كتاب الوكالة:283/8، رشيدية)
و في الفتاوى التاتارخانية:
’’وفي النوازل: وسئل ابو القاسم عن رجل قال لرجل اقرضني عشرة اقفزة حنطة فاقرضه، واستأجر من يحمله على من يجب اجر الحمال؟ قال على المقرض، ويرجع المقرض بذلك على المستقرض‘‘.(كتاب الإجارة، الفصل الرابع والثلاثون: في المتفرقات: 360/15، فاروقية كوئته)
وفي فقه البيوع:
’’ربما يقع تسليم النقود عن طريق التحويل المصرفي... وحقيقته فقها: أن بنك (أ) مدين لزيد بمبلغ رصيده، وأمره بتحويل المبلغ أمر بدفع دينه الذي على البنك إلى وكيل عمرو، وبنك (ب) وكيل لعمرو حكما في قبض المبلغ؛ فقبضه نيابة عن عمرو قبض من عمرو حكما‘‘.(تطبيقات معاصرة لأداء الثمن عن طريق الحوالة، التحويل المصرفي: 428/1، معارف القرآن كراتشي).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 189/249