کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا بھائی جو عرصہ چودہ سال سے زائد ہوا ہے لاپتہ ہے، لاپتہ ہونے سے ایک سال قبل اس کے منگنی کو ہو چکا تھا کہ وہ لاپتہ ہو گیا، اس کے بعد ہم نے کئی سالوں سے اس کی تلاش کے لیے ہر سطح پر کوشش کی ہے اور سرکار میں بھی اس بارے میں اطلاعی رپورٹ دی تھی، مگر اب تک اس کے بارے میں کوئی تسلی بخش اطلاع نہ مل سکی، اب پوچھنا یہ ہے کہ جس جگہ اس کی منگنی ہو چکی تھی، اب وہ لڑکی والے کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنی لڑکی کو مزید اس طرح رکھنا نہیں چاہتے، اب علماء کرام اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ یہ منگنی باقی رکھی جائے گی یا منگنی توڑنے کا اختیار ہے؟ اگر میرا بھائی اس دوران ہمیں مل جائے تو آیا وہ اس منگنی کو قائم رکھ سکتا ہے یا نہیں ؟ ہم اب اس منگنی کو ختم کریں یا اس منگنی کو ہم اپنے بھائی کے بغیر ختم نہیں کر سکتے؟ تسلی بخش جواب دیں۔ جزاکم اللہ
وضاحت: منگنی میں صرف انگوٹھی پہنانے کی رسم ہوئی ہے، باقی ایجاب قبول نہیں ہوا ۔
منگنی کی شرعی حیثیت وعدہ نکاح کی ہےاور وعدہ کو پورا کرنا دیانۃً لازم ہے، کسی معقول عذر کے بغیر اسے توڑنا جائز نہیں ہے۔
صورت مسئولہ میں عرصہ دراز گزر چکا اور تلاش بسیار کے باوجود ابھی تک آپ کے بھائی کی کوئی خبر نہیں ملی، لہذا اب لڑکی اور اس کےوالدین کو منگنی توڑنے کا اختیار ہے ، اور وہ دوسری جگہ لڑکی کا رشتہ کر سکتے ہیں۔لما في صحیح البخاري :
عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ((آية المنافق ثلاث إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا اؤتمن خان)).(كتاب الإيمان، باب علامة المنافق: رقم الحدیث:31:دارالسلام)
و في الدر المختار وحاشية ابن عابدين :
’’جئتك خاطبا لعدم جريان المساومة في النكاح أو هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد ‘‘.(کتاب النکاح:82/4: رشیدية)
و فيه أيضاً :
’’(وبعده يحكم بموته في حق ماله يوم علم ذلك) أي موت أقرانه (فتعتد) منه (عرسه للموت ويقسم ماله بين من يرثه الآن و) يحكم بموته (في) حق (مال غيره من حين فقده فيرد الموقوف له إلى من يرث مورثه عند موته) ‘‘.
و تحته في الرد :
’’لكن لو عاد حيا بعد الحكم بموت أقرانه قال:الظاهر أنه كالميت إذا أحيي، والمرتد إذا أسلم، فالباقي في يد ورثته له ولا يطالب بما ذهب‘‘.(کتاب المفقود:456/6: رشیدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/34