مطلقہ عورت کی عدت میں اس کی بہن سے نکاح کرنا

مطلقہ عورت کی عدت میں اس کی بہن سے نکاح کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کی فاطمہ سے شادی ہونے کے کئی سال بعدطلاق مغلظہ واقع ہوگئی اور زید کی اس سے اولاد بھی تھیں،پھر زید نے فاطمہ کو طلاق دینے کے ایک ماہ بعد  زینب سے شادی کردی جو کہ فاطمہ کی بہن ہےاور اب زینب کی بھی اولاد ہوگئی ہے ،کیا زینب کی اولاد کو زید کی وراثت میں سے حصہ ملےگا یانہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ مطلقہ عورت کی عدت میں اس کی بہن سے نکاح کرنا حرام ہے، میاں بیوی دونوں پر لازم ہے کہ دونوں فورًا اس نکاح کو ختم کریں، اور اگر دوبارہ ازدواجی رشتہ بحال کرنا چاہے، تو تین حیض گزرنے کے بعد ازسرنو نکاح کریں، ہاں نکاح  فاسد میں پیدا شدہ اولاد کا نسب احتیاطا باپ سے ثابت ہوگا اور ان اولاد کو باپ کی میراث میں حصہ ملے گا، لہذا صورت مسئولہ میں زینب کی اولاد کو زید کی میراث میں حصہ ملے گا۔
لما في التنوير مع الدر:
’’(ويجب مهر المثل في نكاح فاسد) وهو الذي فقد شرطا من شرائط الصحة كشهود(بالوطئ) في القبل (لا بغيره)... (و) يثبت (لكل واحد منهما فسخه ولو بغير محضر عن صاحبه، ودخل بها أو لا) في الاصح خروجا عن المعصية... بل يجب على القاضي التفريق بينهما... (ويثبت النسب) احتياطا بلا دعوة (وتعتبر مدته) وهي ستة أشهر(من الوطئ، فإن كانت منه إلى الوضع أقل مدة الحمل) يعني ستة أشهر فأكثر (يثبت) النسب (وإلا) بأن ولدته لاقل من ستة أشهر (لا) يثبت، وهذا قول محمد، وبه يفتى.
وتحته في الرد:
’’قوله: (كشهود) ومثله تزوج الأختين معا ونكاح الأخت في عدة الأخت....
قوله: (وتجب العدة) .... أما إذا علمت أنها حاضت بعد آخر وطء ثلاثا ينبغي أن يحل لها التزوج فيما بينها وبين الله تعالى...‘‘.(كتاب النكاح، مطلب في النكاح الفاسد، 266/4:رشيدية)
وفي البحر:
’’قوله:(و حرم تزوج أخت معتدته)لأن أثرالنكاح قائم، فلو جازتزوج أختها لزم الجمع بين الأختين فلا يجوز‘‘.(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، 180/3: رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/26