کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص سے میں کچھ روپے لے رہا ہوں اس شرط پر کہ آپ کا روپیہ لے کر کاروبار کروں گا، پیسہ آپ کا ہوگا،محنت میری ہوگی، اور منافع میں دونوں برابر کے شریک ہوں گے، اس پر تو وہ راضی ہوگیا، اس کے بعد میں نے کہا کہ اگر اصل رقم میں نقصان ہوگیا تو پھر کیا آپ اس کو برداشت کریں گے؟ تو اس شخص نے کہا کہ میں اپنی اصل رقم میں نقصان برداشت نہیں کرسکتا، تو اس کے لیے شرعی مسئلہ کیا ہے بتلادیں۔ اور اگر میں یہ کروں کہ اس کی رقم لے کر کاروبار کروں، اگر اصل رقم میں نقصان ہوگیا تو میں برداشت کروں گا، اور اس کو وہی رقم دیتا رہوں گا جو مقرر کی گئی ہے، تو اس کے متعلق مسئلہ بتلائیے کہ کہیں سود کے زمرے میں تو شامل نہیں ہوگا؟
مذکورہ صورت میں یہ معاملہ ربا (سود) میں داخل ہے، اور ربا کا حکم یہ ہے :’’کل دین جر نفعاً فھو ربوا‘‘
،ہر وہ قرض جس میں نفع ہو وہ ربا (سود) ہے اور قاعدہ کلیہ ہے کہ: ’’الأقراض تقضی بامثالھا‘‘
، قرض میں کمی بیشی کی شرائط ربا (سود) ہے، لہذا یہ معاملہ شرعا ناجائز ہے۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:04/50