مشتری کا بائع کی طرف سے گاڑی خرید کر قبضہ کرنے کا حکم

Darul Ifta

مشتری کا بائع کی طرف سے گاڑی خرید کر قبضہ کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک گاڑی لوڈنگ کیلئے لینا چاہتا ہوں، اس کی قیمت 20 لاکھ ہے، اگر کوئی آدمی دو سال کی اقساط پہ8لاکھ زائد مطلب28 لاکھ لے گا، مجھے وہ گاڑی خرید کر دے، تو ایسا کرنا شرعاجائز ہوگا،وہ آدمی موقع پہ موجود نہیں، کہ وہ گاڑی پہ قبضہ کرے، اور پہر مجھے دے، وہ صرف پیسہ دے رہا ہے، کیا میں اس کی طرف سے وکیل بن کر گاڑی خرید سکتا ہوں؟ اور گاڑی کی قیمت ادا کرنے تک شرعا اسکا مالک کون تصور ہوگا؟ رہنمائی فرمادیجئے۔

جواب

صورت مسئولہ میں وہ شخص اپنے لئے گاڑی خریدے، اس  پر خود یا وکیل کے ذریعے قبضہ کرادیں، قبضہ کرلینے کے بعد آپ کو 28لاکھ روپے قسطوں میں بھیچ دے، اگر آپ پہلے ان کی طرف سے وکیل بن کر گاڑی خریدتے ہیں اوراس پر قبضہ کرتے ہیں، تو پھر آپ کے لئے  ضروری ہوگا، کہ پہلے اس گاڑی کو اپنے قبضہ سے نکال کر مالک یا اس کے کسی وکیل کو قبضہ دیں،پھر اس گاڑی کو خرید لیں، اپنے قبضہ سے نکالے بغیر آپ  کے لئے اس مالک کی گاڑی کو خریدنا جائز نہیں ہوگا۔
لما في الدر المختار شرح تنوير الأبصار:
’’(وصح بثمن حال) وهو الاصل (ومؤجل إلى معلوم) لئلا يفضي إلى النزاع‘‘.(کتاب البیوع، مطلب في الفرق بین الأثمان ، 49/7، رشیدیة)
وفي حاشية ابن عابدين:
’’(لئلا يفضي إلى النزاع)تعليل لاشتراط كون الأجل معلوما لأن علمه لا يفضي إلى النزاع.....ومنها اشتراط أن يعطيه الثمن على التفاريق أو كل أسبوع البعض فإن لم يشرط في البيع بل ذكر بعده لم يفسد وكان له أخذ الكل جملة‘‘. (کتاب البیوع، مطلب في الفرق بین الأثمان، 49/7، رشیدیة)
 وفي تنوير الأبصار:
’’ولو وكله بشراء شئ بعينه غيرالموكل لا يشتريه لنفسه عند غيبته حيث لم يكن مخالفا فلو اشتراه بغير النقود بخلاف ما سمى له من الثمن وقع للوكيل‘‘.(کتاب الوکالة، باب الوکالة بالبیع والشراء، 288/8، رشیدية)
وفي الدر المختار شرح تنوير الأبصار:
’’والملك يثبت للموكل ابتداء‘‘.(کتاب الوکالة، 282/8، رشیدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/269

footer