کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد کے چندے سے بچوں کے پڑھنے کے لئے درسگاہ بنانے کا کیا حکم ہے؟ اور اس رقم سے مسجد کے لئے حجرہ بنانے کا کیا حکم ہے؟ اور اس رقم سے امام صاحب کے لئے کمرہ بنانا درست ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مسجد کے چندے کو امام صاحب کے لئے اور اِسی طرح مسجد کے لئے کمرہ بنانے کی تعمیر میں خرچ کرنا جائز ہے، البتہ درسگاہ کی تعمیر کے لئے مذکورہ چندے کو خرچ کرنا، چندہ دینے والےکی اجازت پر موقوف ہے، اگر چندہ دینے والے کی طرف سے اس کی اجازت ہو، تو درست ہے، وگرنہ نہیں۔لما في الذخيرة البرهانية:
’’في فتاوى((أبي الليث)) أيضا: مسجد له مستغلات وأوقاف، فأراد المتولی أن یفرش الاٰجر، أو یشتری الحصیر أو الدھن للمسجد أو ما أشبهه، أما فرش الاٰجر فله ذلک؛لأنه من باب البناء،وأما شراء الدھن والحصیر فلا یخلو من ثلاثة أوجه: إما أن وسع الواقف ذلک علی القیم بأن قال: یفعل القیم ما یری[من] مصلحة المسجد وبنائه، وفی هذا الوجه له ذلک، وإماأن لم یوسع عليه وجعله لعمارۃ المسجد وبنائه، وفی هذا الوجه: لیس له ذلک. واما أن لم یعرف شرط الواقف، وفی هذا الوجه: ینظر الی ماقبله إن کانوا یشترون منه الدھن والحصیروالحشیش، له أن یفعل ذلک ومالا فلا‘‘.(كتاب الوقف، الفصل العشرون: قيم المسجد وما يتصل به:9 /65،66، دار الكتب العلمية)
وفي فتح القدير:
’’وله أن يشتري من غلة المسجد دهنا وحصير او آجرا وجصا لفرش المسجد، إن كان الواقف وسع فقال: يفعل ما يراه مصلحة‘‘.(كتاب الوقف، الفصل اللأول في المتولي:223/6، حنفية).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 190/337