مسجد کے لیے وقف شدہ زمین میں دکانیں تعمیر کرنا

مسجد کے لیے وقف شدہ زمین میں دکانیں تعمیر کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ضلع لسبیلہ کے اوتھل شہر میں ایک وقف مسجد ہے، نمازیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے جدید تعمیر کے لیے اس کی قدیم تعمیر کو منہدم کیا گیا، جدید تعمیر کے دوران مسجد کے سامنے قبلہ کی سمت میں کچھ احباب نے اس نیت سے تین دکانوں کی تعمیر کی، تاکہ ان کی آمدن سے مسجد کے اخراجات  مکمل کرنے میں آسانی ہوجائے، جبکہ اس وقت کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ دوکانوں کی تعمیر نہ کی جائے، الحمد للہ مسجد کی تعمیر تو مکمل ہوچکی ہے، لیکن دکانیں تاحال نامکمل ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ امام ِمسجد اور متفرق اوقات میں مسجد تعمیر کرنے والے اور نمازیوں میں شروع سے یہ تنازعہ رہا کہ دکانیں کس کے حوالہ ہوں، اب اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا کہنا  ہے کہ سارا تنازعہ اس وجہ سے ہے کہ مسجد کا کچھ حصہ دکانوں میں شامل ہوگیا ہے، جبکہ محراب کا کچھ حصہ ایک دکان میں شامل ہوگیا ہے، اس پر تو سب متفق ہیں۔
دوسری بات یہ ہےکہ  دکانوں میں سرکاری زمین کا کچھ حصہ بھی شامل کیا گیا ہے، اس پر بھی سب متفق ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ ان دکانوں کی تعمیر بھی مسجد کے لیے آنے والی رقم سے کی گئی ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ تعمیر مسجد فرد واحد کی رقم سے نہیں ہوئی، بلکہ مختلف لوگوں کے عطیات تھے، ان دکانوں کے بارے میں شرعاً کیا حکم ہے، اس بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں؟
(الف) کیا  ان تمام دکانوں  کو مسجد میں شامل کرنا ہے؟
(ب) یا صرف مسجد والے حصہ کو مسجد میں شامل کرنا ہے۔
(ج) سرکاری زمین کا جو حصہ دکانوں کی تعمیر میں لے لیا گیا ہے، جب تک وہ سرکار کے استعمال میں نہیں ہے، اسے دکانوں کے استعمال میں لایا جاسکتا ہے، جب کہ وہ تعمیر بھی مسجد ہی کی رقم سے ہے ؟
وضاحت: مسجد کو شروع میں بنانے والے واقف کے ورثاء موجود ہیں، لیکن ان کو مسجد میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے، کچھ حصہ ابھی کچھ لوگوں نے دیا ہے، وہ بھی موجود ہیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں واقف نے جو جگہ مسجد کے لیے وقف کی ہے، اس جگہ مسجد ہی بنائی جائے، دکانیں  وغیرہ بنانا جائز نہیں۔
البتہ اگر واقف نے وقف کرتے وقت کچھ جگہ مسجد کی مصالح و ضروریات کے لیے چھوڑی تھی، تو اس جگہ پر دکانیں وغیرہ بنانا جائز ہے، لیکن سرکاری زمین میں حکومت کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا جائز نہیں۔
لما في الرد:
’’لو كان الوقف على معين فالعمارة في ماله كما سيأتي بقدر ما يبقى الموقوف على الصفة التي وقفه فإن خرب يبني كذلك ولا تجوز الزيادة بلا رضاءه‘‘.(كتاب الوقف، مطلب عمارة الوقف على الصفة التي وقفه، 562/6، رشيدية)
وفي الفتاوى العالمكيرية:
’’مسجد له مستغلات وأوقاف أراد المتولي أن يشتري من غلة الوقف للمسجد دهنا ... أو آجرا ... قالوا: إن وسع الواقف ذلك للقيم وقال تفعل ما ترى من مصلحةالمسجد كان له أن يشتري للمسجد ما شاء وإن لم يوسع ولكنه وقف لبناء المسجد وعمارة المسجد ليس للقيم أن يشتري‘‘.(كتاب الوقف، الباب الحادي عشر في المسجد، الفصل الثاني ، 461/2، رشيدية)
وفي الدرالمختار:
’’ولا يجوز أخذ الأجرة منه ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا ولا سكنى‘‘.(كتاب الوقف، مطلب في أحكام المسجد، 550/6، رشيدية)
وفي الفتاوى العالمكيرية:
’’قيم المسجد لا يجوز له أن يبني حوانيت في حد المسجد أو في فنائه لأن المسجد إذا جعل حانوتا ومسكنا تسقط حرمته وهذا لا يجوز والفناء تبع المسجد فيكون حكمه حكم المسجد‘‘.(كتاب الوقف، مطلب الوقف على عمارته ومصالحه، 233/4، رشيدية)
وفي البحر:
’’أما لو وقف ضيعة غيره على جهات، فبلغ الغير فأجازه، جاز بشرط الحكم و التسليم.(كتاب الوقف، 314/5، رشيدية).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 190/314