مسجد میں رکھے مقدس اوراق سے کتاب اٹھانا

مسجد میں رکھے مقدس اوراق سے کتاب اٹھانا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شہر کراچی میں عام طور پر یہ دیکھا ہے کہ لوگ گھروں سے شہید قرآن پاک اور مقدس اوراق مسجد میں لا کر رکھ دیتے ہیں، بسا اوقات ان میں خارجی کتب بھی مل جاتی ہیں جو کہ قیمتی اور مفید ہوتی ہیں، تو اگر ایک طالب علم ان کتب کو اپنے لئے لے لے، تو کیا یہ جائز ہے ؟

جواب

عوام الناس عام طور پر بوسیدہ اوراق والے مصاحف اور شکستہ دینی کتب مسجد میں لا کر ضائع کرنے اور دفن کرنے کے لیے رکھتے ہیں، لہذا ان میں سے کوئی کتاب یا مصحف اپنے لئے اٹھانا درست ہے۔
اور اگر کوئی ایسی کتاب ہو، جو شکستہ و بوسیدہ نہ ہو اور وقف کی نیت سے رکھی گئی ہو، تو اس کا مسجد کے باہر استعمال کرنا جائز نہیں۔ تا ہم ایک بات ذہن نشین رہے کہ مسجد اللہ کا گھر اورمسلمانوں کی عبادت گاہ ہے، یہ رفاہی کاموں کے لیے نہیں ہے، لہذا مقدس اوراق مسجد میں لاکر جمع کرنا یا مسجد کو ایسے رفاہی کا موں کے لیے استعمال کرنا از روئے شرع مناسب نہیں، لہذا عوام الناس کو چاہئے کے یہ مقدس اوراق خود کہیں دفن کر دیں جہاں لوگوں کی چلت پھرت بالکل نہ ہو یا کہیں سمندر کے پانی میں بہا دیں۔
لما في التنزیل :
{وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا} [الجن: 18]
و في التنویر مع الدر:
’’(فإذا تم ولزم لايملك ولا يعار ولا يرهن) فبطل شرط واقف الكتب الرهن شرط كما في التدبير‘‘.(کتاب الوقف، 540/4: رشیدية)
و في الفتاوى الهندية :
’’وإذا خرب المسجد واستغنى أهله وصار بحيث لا يصلى فيه عاد ملكا لواقفه أو لورثته حتى جاز لهم أن يبيعوه أو يبنوه دارا وقيل هو مسجد أبدا وهو الأصح كذا في خزانة المفتين في فتاوى الحجة لو صار أحد المسجدين قديما وتداعى إلى الخراب فأراد أهل السكة بيع القديم وصرفه في المسجد الجديد فإنه لا يجوز أما على قول أبي يوسف رحمه الله تعالى فلأن المسجد وإن خرب واستغنى عنه أهله لا يعود إلى ملك الباني وأما على قول محمد رحمه الله تعالى وإن عاد بعد الاستغناء ولكن إلى ملك الباني وورثته فلا يكون لأهل المسجد على كلا القولين ولاية البيع والفتوى على قول أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا يعود إلى ملك مالك أبدا كذا في المضمرات في الحاوي سئل أبو بكر الإسكاف عمن بنى لنفسه مسجدا على باب داره ووقف أرضا على عمارته فمات هو وخرب المسجد واستفتى الورثة في بيعها فأفتوا بالبيع ثم إن أقواما بنوا ذلك المسجد فطالبوا بتلك الأراضي قال ليس لهم حق المطالبة كذا في التتارخانية رجل بسط من ماله حصيرا في المسجد فخرب المسجد ووقع الاستغناء عنه فإن ذلك يكون له إن كان حيا ولوارثه إن كان ميتا وعند أبي يوسف رحمه الله تعالى يباع ويصرف ثمنه إلى حوائج المسجد فإن استغنى عنه هذا المسجد يحول إلى مسجد آخر‘‘. (کتاب الوقف، الباب الحادی عشر في المسجد و ما یتعلق به:565/4: رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:185/323