مرحوم کے قرض کی واپسی کیسے ہوگی اور میراث کی تقسیم

مرحوم کے قرض کی واپسی کیسے ہوگی اور میراث کی تقسیم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم ایک گھر میں چار بھائی اور دو بہنیں رہتے ہیں،  جس میں دو بھائی اور ایک بہن شادی شدہ ہے، دو بھائی اور ایک بہن غیر شادی شدہ ہے، والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے اور والدہ حیات ہے، اب ہمارے درمیان میراث کا مسئلہ پیش آیا ہے، چونکہ ہمارے پاس ایک مکان ہے، جو والد صاحب نے اپنی حیات میں والدہ کا حق مہر چار تولہ سونا بیچ کر خریدا تھا، جس وقت والد صاحب نے سونا بیچا تھا اس وقت سونے کی قیمت کم تھی اور مکان کی قیمت بھی کم تھی، اب اگر ہم گھر کو بیچ کر میراث تقسیم کریں گے، تو والدہ کا حق مہر ادا کریں گے یا نہیں ؟ اگر ادا کریں گے، تو اس وقت کی قیمت ادا کریں گے، یا فی الحال جو قیمت ہے وہ ادا کریں گے؟ اور جو غیر شادی شدہ ہے ان کے لئے کچھ نکالیں گے یا نہیں؟ نیز ورثاء کے درمیان میراث کو کس طرح تقسیم کریں گے؟
برائے مہربانی سوال کا بہترین جواب عنایت فرما کر ہم سب کے دلوں کو مطمئن فرمائیں۔
وضاحت:مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ والد صاحب کے پاس گھر کی قیمت پوری نہیں ہورہی تھی، تو والد صاحب نے والدہ کا سونا بیچ کر اپنی رقم کے ساتھ اس کو ملاکر اس سے گھر خرید لیا، والدہ سے سونا لیتے وقت قرض کی تو کوئی صراحت نہیں ہوئی تھی، لیکن والدہ اس نیت کے ساتھ سونا دے رہی تھی کہ بعد میں یہ مجھے واپس کیا جائے گا، اور اب وہ اس کا مطالبہ کررہی ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ قرض میں اصل یہ ہے کہ جو چیز قرض میں لی جائے اسی کی مثل لوٹائی جائے، اس میں کمی بیشی جائز نہیں ہے، لہذا صورت مسئولہ میں ورثاء پر لازم ہے کہ ترکہ تقسیم کرنے سے پہلے گھر کی قیمت میں سے والد صاحب نے والدہ سے جتنا سونا (بصورت زیورات) قرض لیا تھا اس کا مثل لوٹائیں، نیز باہمی رضامندی سے سونے کی موجودہ قیمت بھی ادا کرسکتے ہیں اور جو ترکہ باقی بچ جائے، اس کو سب ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائےگا۔
تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے کل ترکہ میں سے اس کے کفن دفن کے درمیانی اخراجات نکالے جائیں، بشرطیکہ کسی نے اپنی طرف سے بطور احسان کے ادانہ کئے ہو، اس کے بعد اگر ان کے ذمے کوئی واجب الاداء قرض یا دیگر مالی واجبات ہوں، تو وہ ادا کئے جائیں، اس کے بعد اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے لئے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی میں اسے نافذ کیا جائے، پھر بقیہ ترکہ کو سب ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے۔
لہذا مرحوم کے بقایا ترکہ کے کل اسی (80) حصے کئے جائیں، جس میں سے ہر بیٹے کو چودہ (14)، ہر بیٹی کو سات(7) اور بیوہ کو دس(10) حصے ادا کئے جائیں۔
فیصدی لحاظ سے مرحوم کے ہر بیٹے کو %17.5، ہر بیٹی کو%8.75 اور بیوہ کو %12.5 فیصد حصہ ملے گا۔
مزید تفصیل کے لئے مندرجہ ذیل نقشہ ملاحظہ فرمائیں :

نمبر شمار

رشتہ عددی حصہ فیصدی حصہ

1

بیوہ 10

12.5%

2 بیٹا 14

17.5%

3

بیٹا 14

17.5%

4

بیٹا 14

17.5%

5

بیٹا 14

17.5%

6

بیٹی 7

8.75%

7 بیٹی 7

8.75%

لما في التنزيل:
﴿یوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾.(سورة النساء، رقم الأية:11)
وفي الدر مع الرد:
’’(أعطت زوجها مالا بسؤاله)فروع: دفع دراهم إلى رجل وقال: أنفقها ففعل فهو قرض، ولو دفع إليه ثوباوقال ألبسه نفسك فهوهبة. قال الرافعي: والفرق أن هذا تمليك في المسألتين جميعا، والتمليك قد يكون بالقرض، وقد يكون بالهبة، والقرض أدنى، لأنه تمليك المنفعة، فكان تعينه أولى إن أمكن، لأن قرض الدراهم يجوز‘‘.(كتاب الهبة، فصل في مسائل متفرقة: 606/8: رشيدية)
وفي تنقيح الفتاوى الحامدية:
’’(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغا من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها، (الجواب): نعم ولا ينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض‘‘.(كتاب البيوع: 294/1: رشيدية)
وفي الرد:
’’الديون تقضى بأمثالها‘‘.(كتاب الصوم: 411/3: رشيدية)
وفي السراجي:
’’قال علماؤنا: تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة، الأول: يبدأ بتكفينه وتجهيزه... ثم تقضى ديونه... ثم تنفذ وصاياه... ثم يقسم الباقي بين ورثته‘‘.(كتاب الفرائض، باب الحقوق الأربعة المتعلقة بتركة الميت، ص:10-14: البشرى).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/273