کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک دینی مدرسے میں شعبہ تحفیظ میں استاد کی خدمت سرانجام دے رہاں ہوں، اب الحمدللہ میں 25 دن عمرہ کے لئے جارہا ہوں، تو کیا میرے لئے ان ایام کی تنخواہ لینا جائز ہے؟ تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔
وضاحت: مسفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مذکورہ ادارے میں عیدین کی چھٹیوں کے علاوہ اساتذہ کے لئے اور چھٹیاں نہیں ہیں، نیز سالانہ چھٹیوں کے حوالے سے بھی کوئی ضابطہ نہیں ہے۔
صورت مسئولہ میں اگر آپ ادارے سے 25دنوں کی رخصت لے کر جا رہے ہیں، تو اس صورت میں آپ تنخواہ کے مستحق ہیں، اور اگر بغیر رخصت کے جا رہے ہیں، تو تنخواہ کے مستحق نہیں ہیں، اور ادارے کو چاہیےکہ چھٹی بھی دیدے اور تنخواہ بھی۔لما في رد المحتار:
’’وفي القنية من باب الإمامة إمام يترك الإمامة لزيارة أقربائه في الرساتيق أسبوعا أو نحوه أو لمصيبة أو لاستراحة لا بأس به ومثله عفو في العادة والشرع‘‘.(كتاب الوقف، فصل:يراعى شرط الواقف في إجارته، 609/13، دارالثقافة والتراث دمشق سورية)
وهكذا في غنية المتملي:
(كتاب الصلوة، مسائل شتى، 2 /567،568، رشيدية)
وفي الأشباه:
’’ومنها المدارس الموقوفة على درس الحديث، ولا يعلم مراد الواقف فيها هل يدرس فيها علم الحديث الذي هو معرفة المصطلح كمختصر ابن الصلاح؟ أو يقرأ متن الحديث كالبخاري ومسلم ونحوهما، ويتكلم على ما في الحديث من فقه أو عربية أو لغة أو مشكل أو اختلاف كما هو عرف الناس الآن؟ قال الجلال السيوطي: وهو شرط المدرسة الشيخونية كما رأيته في شرط واقفها. قال: وقد سأل شيخ الإسلام أبو الفضل بن حجر شيخه الحافظ أبا الفضل العراقي عن ذلك، فأجاب بأن الظاهر اتباع شروط الواقفين فإنهم يختلفون في شروط‘‘.(القاعدة السادسة: العادة محكمة، المبحث الثاني، 97، قديمي كتب خانه).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 188/319