کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مدرسہ میں سمارٹ فون پر پابندی ہے، اور اگر کسی طالب علم سے برآمد ہو جائے تو پھر مدرسہ والے اس کو بیچ کر وہ پیسے مدرسہ میں جمع کرتے ہیں، اب ان پیسوں کا کیا حکم ہے؟ جو کہ طالب علم کی رضا کے بغیر ہے۔ تحقیقی جواب دیں بڑی مہربانی ہوگی۔
صورت مسئولہ میں مدرسہ والوں کے لیے موبائل کو نہ تو بیچنا جائز ہے اور نہ ان پیسوں کواستعمال کرنا جائز ہے۔لمافي التنزیل الحکیم:
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾.(سورة النساء:29)
وفي شعب الأيمان للبيهقي:
عن أبي حرة الرقاشي عن عمه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:’’لا يحل مال امرئ مسلم الا بطيب نفس منه‘‘.(باب في قبض الید عن الید عن الأموال المحرمة، رقم الحدیث:5892] 387/4: دار الکتب العلمیة)
وفي سنن الترمذي:
حدثنا بندار حدثنا يحيى بن سعيد حدثنا ابن أبي ذئب حدثنا عبد الله بن السائب بن يزيد عن أبيه عن جده قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: ’’لا يأخذ أحدكم عصا أخيه لا عبا أو جادا فمن أخذ عصا أخيه فليردها إليه‘‘.(أبواب الفتن، باب ما جاءلا يحل لمسلم أن يروع مسلما، ص:654: دار السلام)
وفي الرد:
’’و الحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال ....لایجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعی ‘‘.(شامي: 98/6: رشیدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/02