متعین گھر میں رہائش کے ساتھ طلاق کو معلق کرنا

متعین گھر میں رہائش کے ساتھ طلاق کو معلق کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے پٹھانوں کے علاقے میں کئی کئی بھائی ایک گھر میں اکٹھے ایک ساتھ رہتے ہیں ان کا رہن سہن اور کھانا پینا ایک ساتھ ہوتا  ہے، ایک دن بھائیوں کے درمیان جھگڑا ہوا، تو ایک بھائی نے کہا کہ اگر کل کو تم نے مجھے علیحدہ اور جدا نہ کیا تو میری بیوی کو تین طلاق، اس کے بعد اس کے والد نے کہا کہ اگر آئندہ آپ نے ہمارے ساتھ اس گھر میں ایک رات بھی گذاری، تو میری بیوی کو طلاق، اس وقت ان کے والد وزیرستان والے گھر میں تھے جب کہ ان کا ایک گھر ضلع ٹانک میں ہے اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ :
(1) بھائیوں نے اس ایک بھائی کو فوراً علیحدہ کردیا اور اس کو چچا  کے گھر بھیج دیا، اب دوبارہ یہ بھائی مہینہ دو مہینے بعد ان بھائیوں کے ساتھ اکٹھے ایک ساتھ رہن سہن رکھ سکتا ہے یا نہیں؟
(2) دوسری بات یہ کہ والد نے کہا تھا کہ آٓپ ہمارے ساتھ اس گھر میں رات نہیں گذار سکتے، اس وقت وہ وزیرستان میں تھے، تو کیا یہ بھائی ٹانک  والے گھر میں والد کے ساتھ رہ سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

۱… صورت مسئولہ میں مذکورہ بھائی باقی بھائیوں کے ساتھ رہائش اختیار کرسکتاہے۔
۲…چونکہ والد صاحب نے متعین گھر(وزیرستان والے) کی طرف  اشارہ کرکے یہ الفاظ کہے تھے، لہذا والد صاحب کے دوسرےگھر (ضلع ٹانک والے) میں مذکورہ بیٹے کا اپنے والدکےساتھ رہائش اختیار کرنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
لمافي الهداية:
’’وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق وهذا بالاتفاق،لأن الملك قائم في الحال والظاهر بقاؤه إلى وقت وجود الشرط، فيصح يمينا أو إيقاعا‘‘.(كتاب الطلاق، باب الأيمان في الطلاق: 196/3: البشرى)
وفي الرد:
’’قوله:(أو إشارة) التعريف بالإشارة في الحاضرة؛ وبالاسم والنسب في الغائبة‘‘.(كتاب الطلاق،باب التعليق: 584/4: رشيدية)
وفي البدائع:
’’وقال ابن سماعة عن محمد في رجل حلف: لا يدخل هذا المسجد، فزيد فيه طائفة فدخلها لم يحنث، لأن اليمين وقعت على بقعة معينة ،فلا يحنث بغيرها‘‘.(كتاب الأيمان، فصل في الحلف على الدخول:85/4: رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:147-186/148