متعین وقت سے تاخیر کر کے آنے پر پورے ایک دن کی تنخواہ کاٹنے کا حکم

متعین وقت سے تاخیر کر کے آنے پر پورے ایک دن کی تنخواہ کاٹنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک ادارے میں اساتذہ کرام کے آنے جانے کے اوقات معلوم کرنے کے لیے رجسٹر پر حاضری لی جاتی ہے اور ساتھ بائیو میٹرک مشین جس پر ہر آنے جانے والے استاد کو انگوٹھا لگا کر حاضری یقینی بنانا ہوتا ہے اور اسی بائیو میٹرک مشین کی حاضری کے مطابق ماہانہ اجرت اساتذہ کو دی جاتی ہے، یعنی اگر کوئی استاد وقت سے پہلے چلا جاتا ہے یا لیٹ آتا ہے اسی کے بقدر اجرت میں کٹوتی ہوگی۔
اب ادارے نے حاضری کا ایک دورانیہ مقرر کیا ہے۔ جس کے مطابق مقررہ وقت سے پہلے یا بعد میں لگائی گئی حاضری مؤثر نہ ہوگی بلکہ اسے غیر حاضر تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح چیک ان یا چیک آؤٹ نہ کرنے کی صورت میں بھی غیر حاضری تصور ہوگی اگرچہ کوئی استاد پورا دن حاضر ہی کیوں نہ رہا ہو۔
شریعت مطہرہ کی روشنی میں مسئلہ کا جواب عنایت فرماکر ممنون ومشکور فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ اساتذہ کی حیثیت اجیر خاص کی ہوتی ہے، اور اجیر خاص کے ذمے طے شدہ وقت پر موجود ہونا اور اسی طرح وقت کی پابندی کرنا لازم ہے، اور اجیر خاص اگر وقت سے پہلے چلا جائے یا وقت پر نہ آئے، تو ادارے کے لیے صرف یہ جائز ہے کہ اسی کوتاہی کے بقدر تنخواہ سے کٹوتی کرے، نہ یہ کہ پورے دن کی تنخواہ کاٹ لی جائے۔
لما في التنویر مع الدر:
’’(والثاني) وھو الأجیر(الخاص) ویسمی أجیر وحد(وھو من یعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم)، ولیس للخاص ان یعمل لغیرہ، ولو عمل نقص من اجرتہٖ بقدر ما عمل‘‘. (باب ضمان الأجیر: 118/9، رشیدیۃ)
وفي رد المحتار:
’’قولہ: (ولیس للخاص ان یعمل لغیرہ) بل ولا ان یصلي النافلۃ: قال في التاتارخانیۃ: وفي فتاویٰ الفضلي: وإذا استاجر رجلا یوما یعمل کذا فعلیہ ان یعمل ذلک العمل الی تمام المدۃ؛ ولا یشتغل بشئ آخر سوی المکتوبۃ..... قال في التاتارخانیۃ: نجار استؤجر إلی اللیل فعمل الآخر دواۃ بدرھم وھو یعلم فھو آثم وإن لم یعلم فلا شيئ علیہ وینقص من اجر النجار بقدر ما عمل في الدواۃ‘‘. (باب ضمان الأجیر، مطلب لیس الأجیر الخاص ان یصلي النافلۃ: 118/9، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:189/125