متعین خریداری پر کمپنی کا انعام دینا

متعین خریداری پر کمپنی کا انعام دینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک تاجر یا کمپنی ایک متعین قیمت کی خریداری پر خریداروں کو انعام دینے کا کہے، بغیر کسی قرعہ اندازی کے یعنی جو اس متعین قیمت کی خریداری کرے گا، تو اس کو انعام ملے گا اور انعام تقریباً ایک جیسے ہوں گے، تو کیا یہ جائز ہے؟ رہنمائی کریں۔

جواب

کمپنی کا اپنی چیزوں کی تشہیر اور زیادہ چلنے کی خاطرایک متعین قیمت تک خریداری پرانعامات رکھنا دراصل کمپنی کی طرف سے خریدار کے لیے ہدیہ اور تحفہ  ہوتا ہے، اس لیے کمپنی کا اس طرح انعامات کی آفر رکھنا جائز ہے، بشرطیکہ کمپنی والے اپنی چیزیں عام بازاری قیمت پر بیچتے ہوں۔
لما في الهداية:
’’البيع ينعقد بالإيجاب والقبول إذا كانا بلفظي الماضي، مثل: أن يقول أحدهما: بعث والآخر: اشتريت‘‘.(كتاب البيوع: 3/5: البشرى)
لما في التنوير مع الرد:
’’وشرعا:(تمليك العين مجانا) أي: بلا عوض...(وسببها: إرادة الخير للواهب) دنيوي كعوض ومحبة وحسن ثناء.... (و) تصح (بقبض بلا إذن في المجلس) فإنه هنا كالقبول فاختص بالمجلس (وبعده به) أي: بعد المجلس بالإذن. وفي المحيط: لو كان أمره بالقبض حين وهبه لا يتقيد بالمجلس ويجوز القبض بعده‘‘.(كتاب الهبة: 557/8: رشيدية)
وفي فقه البيوع:
’’ما جرى به عمل بعض التجارأنهم يعطون جوائز لعملائهم الذين إشتروا منهم كمية مخصوصة، ولو في صفقات مختلفة. وقد تعطى هذه الجوائز بقدر الكمية لكل أحد، وقد تعطى الجوائز بالقرعة، وليس هذا من قبيل الزيادة في المبيع؛ لأنها تعطى عادة بعد صفقات متعددة في أزمنة و أمكنة مختلفة، فلا سبيل إلى نسبتها إلى مبيع واحد. فهي هبة مبتدأة موعودة من البائع لتشجيع الناس على أن يشتروا البضاع منه، وجواز أخذها مشروط بألا يكون البائع زاد في ثمن البضاعة من أجل هذا الجوائز، وإلا صار نوعا من القمار‘‘.(الباب الثامن: تقسيم البيع من حيث ترتب اثار: 775/2: معارف القرآن)
وكذا في بحوث في قضايا فقهية معاصرة :
(احكام الجوائز، الجوائز على شراء المنتجات: 2 /158: معارف القرآن).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی