کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ :
’’الف‘‘ اور ’’ب‘‘ دونوں کچھ وقت کے لیے کراچی سے جاکر کوئٹہ میں سکونت پزیر ہوگئے تھے، جب ’’الف‘‘ کا وقت پورا ہوگیا، اور اس کو کراچی آنے کی اجازت مل گئی تو ’’ب‘‘ نے اس سے کہا کہ جاتے وقت میری طرف سے ’’دال‘‘ کے لیے کچھ کپڑا لیتے جانا، جو تقریبا =/750 روپے کی مالیت کا تھا، ’’الف‘‘ نے ’’ب‘‘ سے کہا ’’م‘‘ اور ’’ن‘‘ بھی جارہے ہیں اور میں چونکہ چھٹی لے کر گھر جارہا ہوں، لہذا میں ان سے بعد میں پہنچوں گا، اور آپ کو چونکہ جلدی ہے، اس لیے کپڑا ’’م‘‘اور ’’ن‘‘ کے ہاتھوں بھجوا دیں، ’’ب‘‘ نے ’’الف‘‘ سے پوچھا کہ کیا یہ لوگ اعتباری ہیں، تو’’الف‘‘ نے کہا کہ ہاں اعتبار والے ہیں، اور اس کے بعد ’’الف‘‘نے کپڑا خرید کر ’’ب‘‘ کے حوالے کردیا، کہ یہ ’’م‘‘ اور ’’ن‘‘ کو دے دو، جبکہ ’’الف‘‘ خود بھی ’’م‘‘ اور ’’ن‘‘ کے ساتھ بات کرچکے تھے، کہ کپڑا آپ کو ’’ب‘‘ دے گا، اور وہ آپ ’’د‘‘ کے حوالے کردیں، اور ’’ب‘‘ کو بھی یہ بات بتائی کہ میں نے ان دونوں سے بات کرلی ہے، ’’ب‘‘ نے اپنا اور ’’الف‘‘ کا کپڑا جس کی مالیت =/1000 روپےتھی ’’م‘‘ اور ’’ن‘‘ کے حوالے کردیا، یہاں (کراچی) پہنچنے پر ’’م‘‘اور ’’ن‘‘ سے معلوم ہوا کہ کپڑا راستے میں چوری ہوگیا، اب نقصان کس کس کے ذمے ٹھہرا۔
اس ’’دال‘‘ نے ’’الف‘‘ کو کپڑا خریدنے کے لیے پیسے بھجوائے تھے، کیا ’’الف‘‘ ’’ب‘‘ سے روپے طلب کرسکتا ہے، کیا ’’ب‘‘ ’’م‘‘ اور ’’ن‘‘ سے پیسے مانگ سکتاہے، کیا دال ’’الف‘‘ سے روپے مانگ سکتا ہے، کیا دال ’’ب‘‘ سے روپے مانگ سکتا ہے؟
صورت مسئولہ میں تاوان ’’ب‘‘ پر ہے،’’م‘‘ اور ’’ن‘‘ پر تو اس لیے نہیں کہ یہ امین ہیں اور’’الف‘‘پر اس لیے نہیں کہ اس معاملہ میں وہ کپڑا ’’م‘‘ اور ’’ن‘‘ کے حوالے کرنے میں ’’ب‘‘ کا وکیل ہے۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:01/12