لے پالک (منہ بولا بیٹا) کی شرعی حیثیت

لے پالک (منہ بولا بیٹا) کی شرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے ایک چاچو ہیں جن کی کوئی اولاد نہیں تھی سوائے ایک نو عمر بچی کے، پھر میرا ایک بھائی پیدا ہوا جسے میری والدہ نے رضاعت کے ایام میں دودھ پلایا ،پھر میرے چاچو کو میرا وہ بھائی دے دیا ،وہ ڈہائی سال سے میرے چاچو کی زیر پرورش میں ہے، لیکن وہ کھیلتا بھی میرے بھائیوں کے ساتھ تھا اور  اسے جو چیز چاہیے ہو مثلا :کھانا، پانی، پیسے وغیرہ تو میرے والدین سے مانگتا ہے اور وہ اپنی ناراضگی کی شکایت بھی والدہ سے کرتا ہے، لیکن وہ میرے چچا اور چچی کو امی ابو کہ کر پکارتا ہے اور ہم اس کی نسبت بھی اپنے چاچو کی طرف کرتے ہیں، تو کیا ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اسے واپس لے سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ گود لئے ہوئے بچے کو شرعا حقیقی بیٹے یا بیٹی کے حقوق حاصل نہیں، نہ ہی اس سے نسب ثابت ہوتا ہے، نہ ہی میراث جاری ہوتی ہے، لہذا صورت مسئولہ میں چچا کی طرف نسبت کرنا درست نہیں اور واپس لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
لما في التنزيل :
«وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ....ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا».(سورة الأحزاب،الأية:5،4)
وفي روح المعاني:
’’(وما جعل أدعياءكم أبناءكم(إبطال لما كان في الجاهلية أيضا وصدر من الإسلام من أنه إذا تبنى الرجل ولد غيره أجريت أحكام البنوة عليه....( أدعوهم لآبائهم) أي أنسبوهم إليهم وخصوهم بهم.‘‘(سورة الأحزاب، [الأية:4،5] 188/21:مؤسسة الرسالة بیروت)
وفي أنوار القران وأسرارالفرقان:
’’(وما جعل أدعياءكم أبناءكم( فإن البنوة أمر ذاتي والتبني حكم عارض فلايكون الشئ الحقيقي عين المجازي
(أدعوهم لآبائهم هواقسط عند الله) أي: انسبوهم إليهم لا إلى غيرهم وهو إفراد للمقصود من قوله: الحق وحكم الصدق.(سورة الأحزاب، [الأية:4,5] 191/4:دار الكتب العلمية بیروت).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/327