کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل شادیوں میں لڑکی والوں کی طرف سے بارات کی دعوت کی جاتی ہے، اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ اور لڑکے والوں کا اس میں جوق در جوق شرکت کرنا کیسا ہے ؟
لڑکی والوں کی جانب سےشادی کے موقع پر دعوت کا انتظام و انصرام کرنا، یہ ان کی رضامندی پر منحصر ہے،اگر وہ بغیر کسی رسمی دباؤ اور بغیر سنت (ولیمہ )سمجھے، اپنی خوشی اور رضا مندی سے دعوت کا انتظام کریں تو شرعاً اس کی گنجائش ہے،نیز دولہا کے ساتھ آئے ہوئے چند خاص افراد(باپ ، بھائی وغیرہ )کے لئے بھی کھانے کا انتظام مہمان ہونے کی حیثیت سے ، نا صرف جائز ہے بلکہ ان کےاحترام اور اکرام کا بھی یہی تقاضا ہے۔
البتہ لڑکے والوں کا بڑی بارات کی شکل میں اس دعوت میں شرکت کرنا، اولاً تو مروّجہ بارات کی شرعًا کوئی حیثیت نہیں ہے،اس کا ثبوت آپﷺ کے اور آپ کے بعد اسلاف کے دور میں نہیں ملتا، ثانیًا کثیر تعداد میں لوگوں کو وہاں لے جا کر لڑکی والوں کو ان کے کھانے کا بندوبست کرنے پر مجبور کرنا جائز نہیں،کیونکہ انتظام نہ ہونے کی صورت میں سب کے سامنے ذلت اور رسوائی کا اندیشہ ہوتا ہے،مجبورًا ان کو یہ کرنا پڑتا ہےاور اس کے ساتھ ساتھ دیگرمفاسد بھی پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے لڑکے والوں کا بڑی بارات کی شکل میں جاکر وہاں کھانا کھانا شرعًا پسندیدہ نہیں ہے،اس لئے اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔لما في المشكاة المصابیح:
" عن أنس «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- رأى على عبد الرحمن بن عوف أثر صفرة فقال: ما هذا؟ قال: إني تزوجت امرأة على وزن نواة من ذهب، قال: بارك الله لك، أولم ولو بشاة.» متفق عليه.( كتاب النكاح، باب الوليمة، الفصل الأول، الرقم:3216، 2589:دارالسلام)
وفي المرقاة:
" أولم ولو بشاة أي اتخذ وليمة قال ابن الملك تمسك بظاهره من ذهب إلى إيجابها والأكثر على أن الأمر للندب قيل أنها تكون بعد الدخول وقيل عند العقد وقيل عندهما واستحب أصحاب مالك أن تكون سبعة أيام والمختار أنه على قدر حال الزوج ".(کتاب النکاح، باب الوليمة، الفصل الأول، 370/6: رشيدية)
وفي الدر المختار:
"ويمنعها من زيارة الأجانب وعيادتهم والوليمة وإن أذنت كانا عاصيين كما مر في باب المهر وفي البحر له منعها من الغزل وكل عمل ولو تبرعا لأجنبي ولو قابلة أو مغسلة."
و تحته في الشامية:
" قوله:(والوليمة) ظاهره ولو كانت عند المحارم لأنها تشتمل على جمع فلا تخلو من الفساد عادة رحمتي ..... والذي ينبغي تحويره أن يكون له منعها عن كل عمل يؤدي إلى تنقيص حقه أو ضرره أو إلى خروجها من بيته أما العمل الذي لا ضرر له فيه فلا وجه لمنعها عنه خصوصا في حال غيبته من بيته فإن ترك المرأة بلا عمل في بيتها يؤدي إلى وساوس النفس والشيطان أو الاشتغال بما لا يعني مع الأجانب والجيران."(كتاب الطلاق، باب النفقة، مطلب في الكلام على المؤنسة،330/5: رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/153