کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ لقطہ کے اعلان کا کیا طریقہ ہے، اور گری پڑی چیز کے ملنے کے بعد سے کتنے عرصے تک اس کا اعلان کرنا ضروری ہے، نیز اگر متعین مدت تک اعلان کرنے پر بھی اس کامالک نہیں آیا تو پھر لقطہ اٹھانے والے کے لیے کیا حکم ہے، کیا وہ خود استعمال کر سکتا ہے؟ مدلّل جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں لقطہ اٹھانے والے کو چاہیے کہ وہ بازار میں، مسجدوں کے دروازوں پر یا لوگوں کے مجمع میں یا جہاں وہ چیز ملی ہے اس کے قرب وجوار میں اعلان کرے کہ اگر کسی کی کوئی چیز گم ہوئی ہو تو وہ نشانی بتا کر وصول کرے۔
راجح قول کے مطابق اعلان کرنے کے لیے کوئی خاص مدت متعین نہیں ہے، البتہ جب اس کو یقین ہو جائے کہ اس کا مالک اب اس کو تلاش نہیں کرے گا تو پھر اعلان کرنا چھوڑ دے۔
اگر معین مدت تک اعلان کرنے پر بھی اس کا مالک نہیں آیا تو اس کو اختیار ہے، چاہے تو اپنے پاس رکھے یہاں تک کہ اس کا مالک آجائے اور چاہے تو فقراء پر صدقہ کرے، لیکن اگر وہ خود فقیر ہے تو خود بھی استعمال کر سکتا ہے، اگر مالدار ہے تو خود استعمال نہیں کر سکتا، بلکہ صدقہ کرنا ضروری ہے۔
لما في التنوير مع الدر:
’’(وعرف)أي نادى عليها حيث وجدها، وفي المجامع (إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالاطعمة)‘‘.
وتحته في الرد:
(وفي المجامع) أي محلات الاجتماع كالأسواق وأبواب المساجد، بحر، وكبيوت القهوات في زماننا.(كتاب اللقطة: 424/6: رشيدية)
وفي رد المحتار:
’’(إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها) لم يجعل للتعريف مدة اتباعا للسرخسي؛ فإنه بنى الحكم على غالب الرأي فيعرف القليل والكثير إلى أن يغلب على رأيه أن صاحبه لا يطلبه، وصححه في الهداية وفي المضمرات والجوهرة وعليه الفتوى‘‘.(كتاب اللقطة: 425/6: رشيدية)
وفي البحر الرائق:
’’ولم يجعل للتعريف مدة اتباعا لشمس الأئمة السرخسي ؛فإنه بنى الحكم على غالب الرأي فيعرف القليل والكثير إلى أن يغلب على رأيه أن صاحبه لا يطلبه بعد ذلك‘‘.(كتاب اللقطة: 255/5: رشيدية)
وفي بدائع الصنائع:
’’ثم إذا عرفها ولم يحضر صاحبها مدة التعريف،فهوبالخيار إن شاء أمسكها إلى أن يحضرصاحبها، وإن شاء تصدق بها على الفقراء، ولو أراد أن ينتفع بها فإن كان غنيالايجوزأن ينتفع بها عندنا‘‘.(كتاب اللقطة، فصل في بيان ما يصنع باللقطة:333/8: رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/48