کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص جو کہ غیر شادی شدہ ہے، اس نے کسی موقع پر کسی کام کے کرنے کے حوالہ سے یہ کہا کہ اگر میں نے یہ کام نہیں کیا تو میرے بیوی پر ’’کلما‘‘ کا طلاق ہے، لیکن یہ کہنے کے بعد اس نے انشاءاللہ بھی کہا، لیکن اب اسکو یاد نہیں کہ یہ میں نے متصلا(ملاکر) کہا کہ منفصلا(جدا کر کے) کہا، اب دونوں صورتوں میں ذکر کردہ مسئلہ کا شرعی حکم کیا ہے، یعنی اگر اس نے شادی کرلی تو اس لفظ’’کلما‘‘ کی وجہ سے تو اس کو طلاق ہوجائے گی یا نہیں؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں ذکر کردہ مسئلہ کا مدلل جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہو۔
صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص چونکہ غیر شادی شدہ ہے، نیز طلاق کے الفاظ کہتے وقت سبب ملک کی طرف نسبت بھی نہیں کی، اس لئے اس کا کہا ہوا جملہ لغو ہے، اور اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، چاہے ’’ان شاءاللہ‘‘ متصلاً کہا ہو چاہے منفصلاً۔لما في البدائع الصنائع:
’’ولو عقد اليمين على التزوج بكلمة كلما فطلقت ثلاثا بكل تزوج ثم تزوجها بعد زوج آخر طلقت لأنه أضاف الطلاق إلى الملك والطلاق المضاف إلى الملك يتعلق بوجود الملك بخلاف الدخول. ولو قال لأمرأته أنت طالق لو دخلت الدار كان يمينا كما لو قال إن دخلت الدار وإذا دخلت‘‘. (كتاب الأيمان، 58/4، رشيدية)
وفي تبيين الحقائق:
’’لو قال لامرأته أنت طالق قبل أن أتزوجك أو قال لها أنت طالق أمس وقد نكحها اليوم لا تطلق لأنه أضاف الطلاق إلى وقت لم يكن مالكا له فيه فلغا‘‘. (كتاب الطلاق، باب الطلاق، 56/3، دارالكتب العلمية)
وفي حاشية ابن عابدين:
’’لأنه أسند الطلاق إلى حالة معهودة منافية لمالكية الطلاق فكان حاصله إنكار الطلاق فيلغو ولأنه حين تعذر تصحيحه إنشاء أمكن تصحيحه إخبارا عن عدم النكاح‘‘.(كتاب الطلاق، مطلب في إضافة الطلاق إلى الزمان، 471/4، رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:189/55