لاعلمی میں طلاقنامے پر دستخط کرنے کا حکم

لاعلمی میں طلاقنامے پر دستخط کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری شادی اپنی پھوپھی زاد لڑکی سے  ہوئی تھی، تقریبا 20 سال میری زوجیت میں رہی، بعد میں وہ اغوا ہوگئی، 8 دن کے بعد واپس مل گئی، میرے والد صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم اپنی زوجہ کو طلاق دے دو اور میں نے ارادہ کیا کہ طلاق نہیں دوں گا، بعد میں  والد صاحب نے مجبور کیا اور میں زوجہ کے لیے طلاق نامہ لینے کے لیے کورٹ میں گیا اور اسٹام نوٹس سے کہا کہ: تم طلاق نامہ لکھو اور میرے نیت 3 طلاق کی نہ تھی، اسٹام نوٹس نے اپنی مرضی سے 3 طلاق، طلاق، طلاق لکھیں، جس کی نقل اس کے ساتھ حاضر ہے، اب عرصہ 2 سال کے بعد میں گاؤں گیا اور ہم دونوں دوبارہ نکاح کے لیے رضامند ہوئے ہیں اور میں نے اس طلاق نامہ پر دستخط کئے ہیں، میں نے اسے پڑھا بھی نہیں اور نہ مجھے معلوم تھا کہ اس میں کتنی طلاقیں ہیں، کیونکہ میں پڑھنا نہیں جانتا  اور  بیوی کو طلاق نامہ بھیج دیا اور اس نے نہیں لیا بلکہ واپس کردیا، 2 سال اس لئے خاموش رہے کہ گاؤں جب جائیں گے، تو شریعت کا جو حکم ہوگا اسی پر عمل کروں گا۔ اب اس صورت میں کیا حکم؟رہنمائی فرمائیں۔

جواب

اگر صورت حال واقعتاً اسی طرح ہے جیسا کہ لکھی گئی ہے اور سائل نے کاتب کو صرف طلاق نامہ لکھنے کا کہا تھا، تین طلاقیں لکھنے کا حکم نہیں دیا تھا اور تین طلاقوں کی نیت بھی نہ  تھی، کاتب نے اپنی مرضی سے تین طلاقیں لکھ دیں اور سائل نے طلاق نامہ خود پڑھا بھی نہیں اور پڑھوا کر سنا بھی نہیں اور دستخط کرتے وقت یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس میں تین طلاقیں تحریر ہیں، صرف طلاق نامہ سمجھ کر دستخط کردیے، تو سائل کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوئی، اگر اس تحریر کے بعد بیوی کو تین ماہواریاں آچکی ہیں، تو عدت گذر چکی یا حاملہ تھی اور وضع حمل ہوگیاہے، تو اب رجوع نہیں کرسکتا، البتہ بیوی کی رضامندی سے مہر جدید پر دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
لما في الرد:
’’ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب‘‘.(ردالمحتار، کتاب الطلاق،589/2).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:02/45