کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ قومی ترانہ میں سایہ خدائے ذوالجلال کہنا کیسا ہے؟ اللہ تعالی تو سایہ سے پاک ہے۔
واضح رہے کہ سایہ کا لفظ اردو، فارسی میں استعمال ہوتاہے، لغت کی کتاب فیروز اللغات میں سایہ کے کئی معانی ملتے ہیں، مثلا: پرچھائیں، پناہ، آسیب، حفاظت، حمایت، سرپرستی وغیرہ۔
نیز حدیث مبارکہ میں سایہ کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی گئی ہے، چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے :’’سبعة يظلهم الله في ظله يوم لا ظل إلا ظله‘‘
(بخاری شریف) (یعنی قیامت کے دن سات قسم کے شخص اللہ تبارک و تعالی کے سایہ (سایۂ عرش) میں ہوں گے) مذکورہ حدیث مبارکہ کی تشریح میں بعض محدثین نے سایہ سے حفاظت اور حمایت کو مراد لیا ہے۔
لہذا قومی ترانہ میں مذکورہ کلمہ سے اللہ تبارک و تعالی کا سایہ مراد نہیں ہے، بلکہ دعائیہ کلمہ ہے، یعنی مملکت خداداد پاکستان ہمیشہ اللہ تبارک و تعالی کی حفاظت و حمایت میں رہے۔وفي فتح الباري شرح صحيح البخاري:
(قوله: في ظله) قال عياض: إضافة الظل إلى الله إضافة ملك، وكل ظل فهو ملكه كذا قال. وكان حقه أن يقول إضافة تشريف، ليحصل امتياز هذا على غيره، كما قيل للكعبة بيت الله مع أن المساجد كلها ملكه. وقيل المراد بظله كرامته وحمايته كما يقال فلان في ظل الملك، وهو قول عيسى بن دينار وقواه عياض، وقيل المراد ظل عرشه ويدل عليه حديث سلمان عند سعيد بن منصور بإسناد حسن .’’سبعة يظلهم الله في ظل عرشه فذكر الحديث‘‘.(كتاب الأذان، باب من جلس في المسجد ينتظر الصلاة...، 183/2، قديمي كتب خانه).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 189/243