کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاوں میں ایک مسجد تھی پھر لوگوں نے اسکے بلکل قریب دوسری مسجد بنالی اور پہلے والے مسجد کے نمازی اور امام دوسرے مسجد میں نماز پڑھتے ہیں تو کیا ہم پہلے والے مسجد کو مدرسہ بناسکتے ہیں یا نہیں؟
واضح رہے کہ مسجد کی زمین تا قیامت مسجد ہی کے لئے وقف رہے گی وہ جگہ کسی دوسرے کام مثلاً (تعلیم وغیرہ)کے لئے مخصوص نہیں ہوسکتی، لہذا صورت مسئولہ میں اس مسجد کو خالص مدرسہ بنانا درست نہیں ہے حسب معمول پہلی مسجد میں بھی نماز کا اہتمام کیا جائے۔لما في التنزيل:
’’وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّه ‘‘.(سورة الجن:18)
وفي التنوير مع الدر:
’’(ولو خرب ما حوله واستغنى عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتى)‘‘.(كتاب الوقف، في احكام المسجد، 550/6، رشيدية)
وتحته في الرد:
(ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر‘‘.
’’قوله:(عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى‘‘.(كتاب الوقف، في احكام المسجد، 550/6، رشيدية)
وفي تبيين الحقائق:
’’ومن بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه حتى يفرزه عن ملكه بطريقه ويأذن بالصلاة فيه وإذا صلى فيه واحد زال ملكه‘‘.(كتاب الوقف، في أحكام المسجد، 270/4، دارالكتب العلمية بيروت).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/273