کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری درسگاہ کا ایک ساتھی ہے، اس نےمجھ سے کچھ رقم ادھار لی ہے اور میں نے اس ساتھی کی کاپی میں کچھ لکھائی کی تھی، جب اس ساتھی کو لکھائی کا علم ہوا، تواس نے قسم کھائی کہ میں آپ کو یہ رقم واپس نہیں کروں گا، تو اس ادھار کو واپس کرنا اس ساتھی پرضروری ہے یا نہیں؟ اورجو اس ساتھی نے قسم کھائی ہے اس کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ قرض کی ادائیگی پرقادر ہوتے ہوئے ٹال مٹول اور کوتاہی کرنا اور قرض ادا نہ کرنا ظلم اور خیانت ہے اور آخرت میں اس کا شدید وبال ہوگا، لہذا صورت مسئولہ میں اس ساتھی پرلازم ہے کہ وہ قرض ادا کرے اور ساتھ میں قسم کا کفارہ دس(10)غریبوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے، یا ان کوایک ایک جوڑا کپڑا دیدے، اگراتنی وسعت نہ ہو، توتین روزے مسلسل رکھنے کی صورت میں ادا کرے، باقی کسی طالب علم کی کاپی وغیرہ کواس کی طیب خاطرکے ساتھ اجازت کے بغیراستعمال کرنا جائز نہیں ہے۔لما في سنن الترمذي:
’’حدثنا محمد بن بشار حدثنا عبد الرحمن بن مهدي حدثنا سفيان عن أبي الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة: عن النبي صلى الله عليه و سلم قال مطل الغني ظلم وإن أتبع أحدكم على ملي فليتبع‘‘.)أبواب البيوع، باب ما جاء في مطل الغني أنه ظلم، رقم الحديث:308، ص:417: دارالسلام)
وفي الدرالمختار:
’’لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته‘‘.(كتاب الغصب: 334/9: رشيدية)
وفي شرح المجلة:
’’لايجوز لأحد أن يتصرف في ملك غيره بلا إذنه أو وكالته منه أو ولاية عليه وإن فعل كان ضامنا‘‘.(المقالة الثانية، المادة:96 : 61/1: دارالكتب العلمية)
وفي التنوير:
’’(وكفارته تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين أو كسوتهم)‘‘.(كتاب الأيمان، مطلب كفارة اليمين: 529/5: رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/220