قرض پر نفع لینے کی ایک صورت اور حکم

قرض پر نفع لینے کی ایک صورت اور حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایرانی پیسے کو تو من کہتے ہیں، جب پیسہ ایکسچینج کیا جائے تو ایکسچینج والے دو، تین روپے نفع لیتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ پاکستانی گاڑی والا جب ایران جاتا ہے تو وہ ہمیں کہتا ہے کہ آپ ایکسچینج والے کو پیسے دے دیں، اور ایکسچینج والے سے کہیں کہ وہ پیسے ایران بھیج دیں، میں وہاں جا کر ڈیزل ڈلواتا ہوں، ہم جب ایکسچینج والوں کو گاڑی والے کی طرف سے پیسے دیتے ہیں تو وہ اپنا نفع کاٹتے ہیں، پھر گاڑی والا ایران سے پنجاپ جاتا ہے اور تقریباً ایک ماہ بعد واپس آتا ہے اور ہمیں وہ پیسے دے دیتا ہے جو ہم نے ایکسچینج والوں کے ذریعے ایران بھیجوائے تھے۔ کیا ہم  گاڑی والے سے ان پیسیوں پر نفع لے سکتے ہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں گاڑی والے سے ان پیسوں پر نفع لینا سود ہے، جو کہ حرام ہے۔
لما في الدر المختار :
’’وفي الأشباه: كل قرض جر نفعا حرام‘‘.(كتاب البيوع، فصل في القرض: 416/7، رشيدية)
وفي البدائع:
’’وأما الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة فإن كان لم يجز... لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: أنه نهى عن قرض جر نفعا ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا‘‘.(كتاب القرض، 598/10، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:189/60